Maktaba Wahhabi

657 - 702
[مناسب تر] ہو۔ یہ ایک بیکار و فاسد اصول ہے۔اس لیے کہ رب تعالیٰ اپنی حکمت و رحمت سے اپنی خلقت کے لیے وہی کرتے ہیں جو ان کے دین ودنیا میں ان کے لیے مناسب تر اور صالح ہو۔ لوگ اس اصول میں تین اقوال پر ہیں ۔ قدریہ کہتے ہیں :زیادہ اصلح کی رعایت کرنا؛ یا متعین طور پر ہر متعین شخص کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔ اور واجب کو یہ لوگ اس جنس سے مانتے ہیں جس طرح کا واجب انسان پر ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عوام میں سے کسی ایک پر واجب اور حرام کے ہونے میں مشابہ قراردیکر غلطی کا شکار ہوئے۔پس یہ لوگ افعال میں تشبیہ دینے والے[مشبہ] ہیں ۔ پس ان لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے کل مصلحت عامہ اور فرد مصلحت خاصہ کے مابین کوئی فرق نہیں کیا۔ یہ مصلحت بسا اوقات ایسی عوامی خرابی کو مستلزم ہوسکتی ہے جو کہ اصلاح عام کی ضد ہو۔ قدریہ مجبرہ جہمیہ اللہ تعالیٰ کے لیے رحمت اور حکمت کو ثابت نہیں مانتے۔ بلکہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض اپنی مشئیت سے کرتے ہیں ۔ اس میں نہ ہی کوئی حکمت ہوتی ہے؛ اور نہ ہی کوئی رحمت ۔ ان سب کا سرغنہ جہم بن صفوان تھا؛ وہ مصائب میں گرفتار لوگوں جذامیوں (اور کوڑھیوں )کے پاس جاتا ؛ اور ان سے کہتا :کیا ایسا ارحم الراحمین نے کیا ہے؟ اس کی مراد یہ ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں رحمت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں ۔ سوئم :....جمہور کا قول؛ بیشک اللہ تعالیٰ علیم ہیں ؛ رحیم و حکیم ہیں ؛ عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہیں ۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے نفس پر رحمت کو(واجب کرلیا)لکھ لیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ بندے پر اس کی ماں سے بڑھ کر زیادہ مہربان ہیں ۔جیسا کہ یہ بات کتاب و سنت کی نصوص میں موجود ہے۔ اور اس پر باعتبار حس و عقل گواہ موجود ہیں ۔ اور ایسا حقیقت واقع میں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت اس کے حکم کے تحت ہورہا ہے کہ رب سبحانہ و تعالیٰ نے رحمت کو اپن ذات پر واجب کرلیا ہے؛ اور ظلم کو اپنی ذات پر حرام ٹھہرایا ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ مخلوق نے کوئی چیز اس پر واجب یا حرام کی ہو؛ اور نہ ہی اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ کسی چیز کے واجب یا حرام ہونے میں مخلوق سے مشابہ ہے۔بلکہ اس کی جانب سے ہر نعمت اس کے فضل و احسان کا کرشمہ ہے؛ اور ہر پریشان اور سزا اس کی جانب سے عدل ہے۔اور مخلوق کا ذات باری تعالیٰ پر اس حق کے سوا کوئی حق نہیں ہے جو حق اس نے خود اپن ذات اقدس پر ذمہ میں لے لیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام:۱۲) ’’تمہارے پروردگار نے رحمت کو اپنی ذات پر لکھ رکھا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾[الروم ۴۱] ’’ مؤمنین کی نصرت کرنا ہم پر حق واجب تھی۔‘‘ یہ اس کے حکم کے وعدہ؛ اور خبر کی صداقت کے عین مطابق ہے۔ اور اس پر تمام مسلمانوں کے مابین اتفاق ہے۔ اور اس کی کتاب میں اس نے اپنی ہستی پر یہ لکھا [لازم کیا ہوا]ہے جو کہ اس کی حکمت اور رحمت کے عین مطابق ہے۔
Flag Counter