Maktaba Wahhabi

665 - 702
ہوئی وہ بارہ ائمہ کے وجود سے بہت بڑھ کر تھی۔اس طرح کی اصلاح روم ‘ ترک اور ہند کے بادشاہوں کے ہاتھوں بھی ہوتی ہے جو کہ امام غائب المنتظر کے ہاتھ پر ہونے والی اصلاح سے بہت زیادہ اور بڑھ کر ہوتی ہے۔اس لیے کہ کوئی بھی حاکم ایسا نہیں ہوتا جس کو اگر معدوم مان لیا جائے تو اس کے نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والا فساد اس کے وجود سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔لیکن ایسے ہوسکتا ہے کہ ایک حاکم کی نسبت کسی دوسرے میں اصلاح کا پہلو بہت زیادہ ہو ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ: ’’ ظالم امام کے زیر تسلط ساٹھ سال بسر کرنا ایک رات بغیر امام و حاکم گزارنے سے بہتر ہے۔‘‘ اگر شیعہ یہ کہیں کہ : ’’ وجود ِامام سے ایسی اصلاح مقصود ہوتی ہے جس کے ساتھ کوئی فساد باقی نہ رہے ۔‘‘ تو ان سے کہا جائے گا : ’’ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی ایسا پیدا نہیں کیا ۔ اور نہ ہی ایسے اسباب پیدا کئے ہیں جو اس کو لا محالہ طورپر واجب کریں ۔ جوکوئی اس کو واجب کہتا ہے ‘ وہ اس کے لوازمات کو اللہ تعالیٰ پر واجب قرار دیتا ہے۔ ایسا کہنا یا تو اس کے عقل میں فساد کی وجہ سے ہے ؛ یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مذمت کرنا چاہتا ہے ۔اور ایسی مخلوق کو پیدا کرنا جس کے وجود کے ساتھ یہ سب ممکن ہو؛ صرف اس طرح سے حاصل نہیں ہوسکتا ‘ جب تک وہ اسباب نہ پیدا کردیئے جائیں ۔ اس کی مثال افعال عباد میں بیان کی جاسکتی ہے ۔ لیکن معصوم کے بارے میں کوئی بات کہنا بہت خطرناک ہے ۔ اس لیے کہ امام کی مصلحت اس کی قدرت سے خارج کے اسباب پر موقوف ہے۔ صرف یہی نہیں ‘بلکہ شیعہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھی باہر ہے ۔ یہ حقیقت میں رافضیوں کے معتزلی عقائد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پر ان چیزوں کو واجب کرنے کا عقیدہ ہر انسان کے لیے اس کی مصلحت پیدا کرنے کے عقیدہ سے بڑھ کر فاسد ہے ۔ گیارھویں وجہ:....شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ اگر امام معصوم نہ ہو تو کسی اور امام کی ضرورت لاحق ہوگی۔اس لیے کہ حاجت ِ امام کی علت امت کے لیے خطاء واقع ہونے کا جواز ہے ۔اگر یہ کہیں کہ امام سے بھی خطأ ہوسکتی ہے تو پھر ایک ایسے امام کی ضرورت پڑے گی جو خطاء سے پاک و صاف ہو۔‘‘ جواب : ہم کہتے ہیں کہ: ایسے کہنا کیوں جائز نہیں ہوسکتا کہ جب امام سے غلطی صادر ہو تو امت کا کوئی فرد اس کی اصلاح کر دے ، تاکہ سب لوگوں کا غلطی پر جمع ہونا لازم نہ آئے؟ جس طرح رعیت کا کوئی فرد غلطی کر رہا ہو تو امام یا اس کا نائب یا ان کا کوئی دوسرا فرد اس کی اصلاح کرتا ہے ۔ایسے ہی جب امام یا اس کے نائب سے غلطی ہوجائے تو امت کا کوئی فرد ان کی اصلاح پر تنبیہ کردے ۔ جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ گناہ سے بچ جاتے ہیں اور اس پر جمع نہیں ہوتے ؛ نہ کہ امت کا ہر ایک فرد معصوم ٹھہرتا ہے ؛ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ خبر متواتر میں ایک ایک کرکے ہر شخص کے بارے میں کذب و خطا کا احتمال ہوتا ہے۔اور ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک فرد جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہو۔ مگر بہ حیثیت مجموعی عادۃً یہ احتمال باقی نہیں رہتا۔ایسی ہی مثال
Flag Counter