Maktaba Wahhabi

677 - 702
ایمان کا کم ترین درجہ ہے ۔‘‘ پس جب کوئی مؤمن کفار و فجار کے درمیان رہ رہا ہو‘اور اس کے لیے اپنی عاجزی کی وجہ سے ہاتھ سے جہاد کرنا ممکن نہ ہو ؛ لیکن اس کے لیے زبان سے منع کرنا یا دل میں برا جاننا ممکن ہوتا ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی اس نے [ڈر کر ] جھوٹ نہیں بولنا ؛ اورزبان سے اس چیز کا اظہار نہیں کرنا جو اس کے دل میں نہ ہو۔خواہ وہ اپنا دین ظاہر کرے یا چھپائے رکھے۔ مگر کسی بھی صورت میں ان کے دین پر موافقت نہ کرے۔بلکہ زیادہ سے زیادہ آل فرعون کے اس مؤمن ۔یا فرعون کی بیوی ۔کی طرح ہو؛ یہ لوگ فرعون کے پورے دین پر اس کے ساتھ موافق نہیں تھے۔اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے ؛ اورنہ ہی اپنی زبان سے ایسی بات کہتے تھے جو ان کے دل میں نہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے۔ اپنے دین کو چھپانا ایک اور چیز ہے ؛ جبکہ باطل دین کا اظہار کرنا ایک علیحدہ چیز ہے۔ ایسا کرنے کو اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی جائز نہیں ٹھہرایا؛ سوائے اس صورت کے انسان کو کلمہ ء کفر کہنے پر مجبور کیا جائے۔ اس صورت میں اس کے لیے بامر مجبوری زبان سے کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے منافق اور مکرہ [مجبور] کے مابین فرق کھول کر بیان کیا ہے ۔ رافضیوں کا حال تو منافقین کے حال جیسا ہے۔ ان کا حال اس مجبور جیسا نہیں جسے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے ؛ اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔یہ اکراہ بھی تمام جمہور بنی آدم کے ساتھ نہیں ہوسکتا ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ انسان کافروں کے پنجے میں قید ہو؛ یا کسی جگہ بلاد کفر میں اکیلا ہو۔ [ہاں ]اگر اسے کوئی کلمہ کفر کہنے پر مجبور نہ کرے ؛ اور نہ ہی وہ اپنی زبان پر ایسا کلمہ لائے؛ اور نہ ہی اپنی زبان سے ایسی بات کہے جو اس کے دل میں نہ ہو۔ تو کبھی یہ ضرورت پیش آسکتی ہے کہ کفار کے ساتھ نرمی سے پیش آئے ؛ تاکہ وہ اسے اپنا گمان کریں ؛ مگر اس کے ساتھ زبان سے خلاف دل کوئی بات نہ کہے ؛ بلکہ اپنے دل میں ایمان کو چھپائے رکھے۔ جھوٹ بولنے اور بات چھپانے میں جو فرق ہے وہ صاف واضح ہے۔ چھپانا اس کو کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں کو ئی چیز ہو‘ مگر وہ اس کے ظاہر کرنے میں اللہ کے ہاں معذور ہو۔ جیسے کہ آل فرعون کے مومن کا حال تھا۔ اس کے برعکس جو انسان کفریہ کلمات کہے ؛ اس کا عذر صرف مجبور ہونے کی صورت میں قبول کیا جائے گا۔منافق جو جھوٹ بولتا ہے اس کا عذر کسی بھی حال میں قبول نہیں کیا جائے گا۔اس کے [چہرہ کے ]اثرات سے جھوٹ کا پتہ چل جاتا ہے۔ پھر جو مؤمن اپنا ایمان چھپاتا ہے وہ کفار کے مابین بود و باش رکھنے والا ہوتا ہے جہاں کے لوگ اس کے دین و ایمان کو نہیں جانتے ۔ اس کے ساتھ ہی وہاں کے لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کا اکرام کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس انسان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے ساتھ سچائی اور امانت کا او رخیر خواہی کا معاملہ کرے۔ اور ان کی بھلائی کا خواہاں رہے۔ اگرچہ وہ ان کے دین پر ان سے موافقت نہ رکھتا ہو۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کفار مصر کے درمیان معاملات چلا رہے تھے۔ اور جیسے آل فرعون کا مؤمن اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔اس کے باوجود موسی علیہ السلام کی
Flag Counter