Maktaba Wahhabi

697 - 702
آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے عہد لے لیا[انہیں اپنا ولی عہد مقررکردیا ]۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوگیا تھا کہ امت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلے گی تو پھر آپ نے اس بارے میں کوئی حکم جاری نہ فرمایا۔ صحیحین میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’ اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک عہد نامہ لکھ دوں ۔‘‘ پھر فرمایا: اﷲ تعالیٰ اور مسلمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوگیاتھا کہ اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو خلیفہ نہیں بنائے گا۔ اور اہل ایمان ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی بیعت نہیں کریں گے۔ ایسے ہی ساری صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہو گیا تھا۔بیشک علم ہوجانے کے بعد حکم کا ترک کرنا افضل تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ اس لیے کہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لازم کیے بغیر اگر اپنی مرضی سے ہی آپ کو منتخب کرلے گی تو یہ بہت اچھا ہوگا؛ اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر راضی ہیں ؛ اس لیے کہ آپ سب امت میں سے افضل انسان تھے۔آپ کا علم و دینداری اس کی واضح دلیل ہیں ۔ اس لیے کہ اگر امت پر اس امر کو لازم کردیا جاتا تو یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ امت کو حق ماننے پر مجبور کیا گیا۔ امت آپ کو منتخب نہیں کرنا چاہتی تھی؛ جیسا کہ بنی اسرائیل میں ہوا کرتا تھا۔تو کوئی بدگمانی کرنے والا یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ابھی تک ان لوگوں میں جاہلیت کا عنصر یعنی نسب کی وجہ سے مقدم کرنے کی روش باقی ہے۔ اور امت صرف ان لوگوں کو منتخب کرنا چاہتی تھی جو بنو عبد مناف سے تعلق رکھتے ہوں ۔ جیسا کہ ابو سفیان اور دوسرے لوگوں کی رائے تھی۔ اگر مہاجرین و انصار پر اس امر کو لازم کر دیا جاتا ؛ تو کوئی بھی کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ یہ بالکل ابو سفیان اور اس کے امثال کے فعل کی جنس سے ہے۔ لوگ اولا و آخراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اختصاص؛ اور آپ کے ساتھ ظاہری و باطنی موافقت کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا تھا:یہ لوگ باطن میں اس کو ناپسند کرتے تھے کہ ان پر کوئی ایسے حکم چلائے جیسے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیا کرتے تھے ۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اس کو لازم کردیا تو پھر وہ اس کو ماننے کے لیے مجبور ہوگئے۔ [تو اس صورت میں ] اگرچہ او رکچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری پر ان کی مدح و تعریف کی جاتی۔ تو پھر جب انہوں نے بغیر اس کے کہ ان پر لازم کیا جائے ؛ اپنی مرضی اور اختیار سے ایسے آدمی کو خلیفہ چن لیا جس پر اللہ اور اس کا رسول راضی ہوں ؛ یہ بات اللہ کے ہاں ان کی بہت بڑی قدر و منزلت اور اعلی درجات اور بہت بڑے ثواب کی دلیل ہے۔ جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کے لیے اختیار کرلیا تھا ؛ وہ ان [عوام اور خلیفہ ]کے حق میں سب سے بہتر اور افضل تھا ۔
Flag Counter