Maktaba Wahhabi

147 - 702
’’اور جب وہ مؤمنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں توکہتے ہیں بیشک ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔‘‘ ٭ یہ بات تو معلوم ہے کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو شیاطین جنات بھی ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ؛ اس کے لیے انہیں کسی خلوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اور شیاطین جنات ہی انہیں نفاق کا حکم دیتے ہیں ۔ اور جب وہ اپنے بڑوں کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہیں ؛ اس وقت بھی شیاطین جنات سامنے نہیں آتے ۔اور ان سے آکر یہ نہیں کہتا : میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ خصوصاً جب وہ اپنے آپ کو حق پر خیال کرتے ہیں ۔ ٭ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآئُ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُفَہَآئُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ ۱۳) ’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں ، توکہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں ؟ سن لو! بیشک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔‘‘ اگر انہیں یہ پتہ چل جاتا کہ انہیں ایسا حکم دینے والا شیطان ہے؛ تو وہ کبھی اس کی بات نہ مانتے۔ خلیل بن احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : اہل عرب کے ہاں ہر سرکش باغی کو شیطان کہا جاتا ہے۔ اور اس کے اشتقاق کے بارے میں دو قول ہیں ۔ان دو میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ: یہ شطن یشطن سے ہے؛ جب خیر و بھلائی سے دور ہو۔ اس میں نون اصلی ہے۔ امیہ بن صلت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مواصفات کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ جو بھی ’’شاطن‘‘ یعنی سرکش آپ کی نافرمانی کرتا؛ آپ اسے گرفتار کرتے پھر اسے بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ۔ ٭ لعنت بھی خیر و بھلائی سے دور پر ہوتی ہے۔ شیطان ہر قسم کی خیر و بھلائی سے دور ہوتا ہے۔ یہ فیعال کے وزن پر ہے۔اس کی نظر فعّال بھی آتی ہے۔ یہ صفت مبالغہ ہے۔ جیسے : القیَّام اور القوَّام ؛ پس القیَّام فیعال کے وزن پر ہے۔اور القوَّام فعَّال کے وزن پر ہے۔ ٭ پس شیطان ایک قوی اور ثابت شدہ وصف ہے؛ جو کہ خیر وبھلائی سے بکثرت دوری پر دلالت کرتا ہے۔ بخلاف اس کے جو کبھی کبھار خیر سے دور ہوتا ہے اور پھر اس کے قریب آجاتا ہے۔ یہ شیطان نہیں ہوسکتا۔ اس پر ان کا یہ قول بھی دلالت کرتاہے:تشیطن یتشیطن شیطنۃ۔ ٭ اس کے استقاق کے متعلق یہی بات صحیح اور درست ہے۔ اس میں حروف کی جنس میں بھی اتفاق پایا جاتا ہے۔ جیسے ابو جعفر سے مروی ہے ؛وہ کہتے ہیں :’’ عامۃ عمی سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ انہیں فقط جانوروں سے تشبیہ دی جائے؛ حتی کہ فرمایا:﴿ ِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ [فرقان] ’’بلکہ وہ راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ ہیں ۔‘‘
Flag Counter