Maktaba Wahhabi

165 - 702
پڑھیں تو ہفتہ والے دن وہ جمعہ نہیں پڑھ سکتے۔ جب کہ پانچ نمازوں کے بارے میں ثابت ہے کہ معذور کے لیے جب بھی ممکن ہو؛ وہ پڑھ لے گا۔ جیسا کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (( من نام عن صلاۃ أو نسِیہا فلیصلِہا إِذا ذکرہا فِإن ذلِک وقتہا ؛ لا کفارۃ لہا إلا ذلک۔))[1] ’’ جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ یا بھول جائے؛ تو جب اسے یاد آجائے؛ وہ نماز پڑھ لے؛ یہی اس کا وقت ہے؛ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔‘‘ ایسے ہی رمضان کے روزے بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر مریض اور حائض کو حکم دیا ہے کہ وہ اتنے ہی دن بعد میں دوسرے دنوں میں روزے رکھ لیں ۔ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کے مابین مشترک وقت ؛ عذر کی صورت میں ان نمازوں کے پڑہنے کے لیے جواز کا وقت ہے۔ اگر بغیر عذر کے انہیں اس وقت میں پڑھا گیا؛ تو ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔ لیکن پھر بھی یہ ایسے وقت میں پڑھی گئی ہیں ؛ جو جملہ طور پر ان نمازوں کا وقت شمار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حکمرانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے کا حکم دیاہے؛ جو نماز کو اپنے وقت سے تاخیر کرکے پڑھیں گے؛ اور ان سے جنگ کرنے سے منع کیا ہے؛ حالانکہ ان کی اور ان کے ظلم کی مذمت کی ہے۔ یہ حکمران ظہر میں عصر تک تاخیر کرتے تھے۔ تو شیعہ کا ایک گروہ آیا وہ پہلے وقت میں نمازیں جمع کرکے پڑھنے لگا۔اب بلا عذر بھی ہمیشہ کے لیے ان کا یہی طریقہ کار ہے۔ پس وقت مشترک میں عذر کی وجہ سے جواز داخل ہوتا ہے۔ خواہ یہ عذر حکمرانوں کی تاویل ہو۔ مگر یہ نماز اصل وقت چھوڑنے کے گناہ کے باوجود صحیح ہوگی؛ جب تک کہ مطلق طور پر وقت ختم نہ ہو جائے۔جیسے کوئی ماہ رمضان میں جان بوجھ کر روزے توڑ دے؛ اور کہے: میں شوال میں روزے رکھوں گا۔ یا پھر جان بوجھ کر نماز ظہر اورعصرمیں تاخیر کرے۔ اور کہے:میں انہیں مغرب کے بعد پڑھوں گا۔ یا مغرب اور عشاء میں تاخیر کرے اور کہے میں فجر کے بعد پڑھوں گا۔ یہ فجر میں سورج طلوع ہونے کے بعد تک تاخیر کرے۔ تو یہ درحقیقت بلا عذر نمازوں کا ترک کرنا ہے۔صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( من فاتتہ صلاۃ العصرِ فکأنما وتِر أہلہ ومالہ۔))[سبق تخریجہ ] ’’جس کی نماز عصر رہ گئی گویاکہ اس کے اہل خانہ اور مال سب تباہ ہوگئے ۔‘‘
Flag Counter