Maktaba Wahhabi

166 - 702
اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( من ترک صلاۃ العصرِ فقد حبِط عملہ ۔)) [سبق تخریجہ ] ’’جس نے عصر کی نماز ترک کردی؛ اس کے اعمال تباہ ہوگئے ۔‘‘ اگر انسان کے لیے اس کا استدراک ممکن ہوتا تو اس کے اعمال تباہ نہ ہوتے۔ اور آپ کا یہ فرمان گرامی کہ: (( وتِر أہلہ ومالہ۔))[سبق تخریجہ ] ’’گویاکہ اس کے اہل خانہ اور مال سب تباہ ہوگئے ۔‘‘ یعنی وہ آدمی اکیلا رہ گیا؛ نہ اس کے اہل خانہ رہے اور نہ ہی مال۔ اگر اس کا رات میں ادا کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے مال و عیال سے تنہا نہ رہ جاتا۔ حدیث میں آتا ہے: ((من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ))[سبق تخریجہ ] ’’جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر کی ایک رکعت پالی ؛ تو اس نے عصر کی نماز پالی ۔‘‘ اگر اس نماز کا مغرب کے بعد پڑھنا مطلق طور پر درست ہوتا ؛ تو وہ نماز کو پالینے والا ہوتا۔ بھلے وہ ایک رکعت پائے یا نہ پائے۔ بیشک ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو کوئی ایک رکعت پالے؛ تو اس کی نماز گناہ کے بغیر ہی درست ہو جائے گی۔بلکہ وہ عمدا تاخیر کرنے پر گنہگار ہوگا۔ اس پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ۔بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کہ عصر کی نماز کو آسمان میں زردی چھاجانے کے بعد تک مؤخر نہ کیا جائے۔ زردی پھیلنے سے پہلے اس نماز کا پڑھنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے: (( صلوا الصلاۃ لِوقتِہا ۔)) ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرو۔‘‘[1] تو معلوم ہوا کہ نماز کو پالینے سے اس میں بلا عذر دیر کرنے کا گناہ ختم نہیں ہوتا۔بلکہ یہ انسان گناہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے والا بھی شمار ہوتا ہے۔ اگریہ نماز مغرب کے بعد پڑھے تو بھی گناہ تو ہوگا؛اور آسمان پر زردی چھا جانے کے بعد اور مغرب کے بعد پڑھنے میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ان میں سے ایک کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں نماز میں جتنی دیر کی جائے گی؛ اس میں اتنا ہی زیادہ گناہ ہوگا۔ پس تقدیم کے وجوب کے ساتھ اس کی قضاء جائز ہے۔ او ر قضاء میں جتنی تاخیر کی جائے گی؛ اتنا ہی اس کا گناہ بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔ اور جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ یا بھول جائے تو جب وہ بیدار ہو؛ یا اسے یاد آئے تو وہ نماز پڑھ لے۔ اس کے
Flag Counter