Maktaba Wahhabi

250 - 702
امکان زیادہ قوی ہو، دوسرے سواری کھانے پینے سمیت جاتی رہے جو ڈھونڈنے پر بھی نہ ملی ہو اور ناامیدی موت کے یقینی ہونے میں تبدیل ہو رہی ہو، لیکن پھر اچانک بیدار ہونے پر وہ سواری سامنے کھڑی ہو تو آدمی کو اس سے ایسی فرحت و مسرت میسر آتی ہے جس کی تعبیر ممکن نہیں ۔ یہ بات رب تعالیٰ کی اس توبہ کے ساتھ محبت کو بیان کرتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کو متضمن ہو اور اس کے برخلاف کے ساتھ رب تعالیٰ کی کراہت کو بھی بیان کرتی ہے۔ جس میں جہمیہ اور قدریہ پر ردّ ہے جو اس بات کے منکر اور دونوں باتوں کے قائل نہیں کہ یہ دونوں جماعتیں سب باتوں کو رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے یکساں قرار دیتی ہیں ۔ پھر قدریہ کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ بندے کے نفع کا قصد کرتا ہے کیونکہ یہ حسن ہے اور بندے پر ظلم کا قصد نہیں کرتا کیونکہ یہ قبیح ہے اور جہمیہ کا قول ہے کہ جب رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں تو رب تعالیٰ کے نزدیک کسی شے کا حَسَن یا قبیح ہونا ممتنع ٹھہرا۔ بلکہ یہ بات بندوں کے امورِ اضافیہ کی طرف راجع ہو گی۔ اب بندے کے اعتبار سے حسن وہ شے ہے جو اس کے مناسب ہو اور اس پر وہ ثواب مرتب ہوتا ہو جو اس کے مناسب ہو، اور قبیح وہ شے ہے جو اس کے برعکس ہو، یہیں سے ان لوگوں نے محبت کو اور ارادہ کو یکساں قرار دے دیا ہے۔ پس اگر یہ لوگ اس بات کو ثابت کرتے کہ رب تعالیٰ محبوب کے حصول پر خوش ہوتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے، تو ان پر اس کی حکمت ظاہر ہوتی اور یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ رب تعالیٰ کے جملہ افعال حکمت پر مبنی ہیں ۔ اب جہمیہ کا قول ہے کہ جب رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے جملہ اشیاء برابر ہیں تو رب تعالیٰ کا کسی حکمت کے تحت کوئی فعل کرنا ممتنع ٹھہرا ۔اور معتزلہ کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ایسی حکمت کے تحت فعل کرتا ہے جو بندے کی طرف لوٹتی ہے۔ جہمیہ انھیں یہ کہتے ہیں کہ اب یہ حکمت یا تو اللہ کی طرف لوٹتی ہے، جس میں سے ایک بات ’’حکم‘‘ ہے؛ اور یا رب تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹتی۔ رہی پہلی صورت تو وہ تمھاری اپنی وضع کردہ اصل کے خلاف ہے اور دوسری صورت ازخود ممتنع ہے کیونکہ کسی کا حسن کو قبیح پر اختیار کرنا ممتنع ہے جب کہ فعل حسن میں ایسا معنی ہی نہ ہو جو اس کی طرف لوٹتا ہو۔ تاکہ فعل حسن اس کے مناسب ٹھہرے۔ بخلاف قبیح کے، پس جب اس کا منفی ہونا فرض کر لیا گیا تو اس کا کسی حکمت کی خاطر اس فعل کو کرنا بھی ممتنع ٹھہرا۔ پھر یہ صفت صفاتِ کمال میں سے سب سے بڑی صفت ہے، اسی طرح رب تعالیٰ کا محبوب لذاتہ ہونا رسولوں کے دین کی اصل ہے کیونکہ سب رسولوں نے رب تعالیٰ کی عبادت و وحدت کی دعوت دی ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور الٰہ وہ ہوتا ہے جو مستحق عبادت ہو اور عبادت صرف تعظیم اور محبت کی بنا پر کی جاتی ہے۔ وگرنہ جو کسی ملنے والے معاوضے کے بدلے دوسرے کا کام کرتا ہے، وہ اس کا ’’عابد‘‘ نہیں کہلاتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter