Maktaba Wahhabi

285 - 702
﴿لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ﴾ (الجن: ۲۸) ’’تاکہ جان لے کہ بے شک انھوں نے واقعی اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میری طرف سے پہنچا دو چاہے ایک بات ہی ہو۔‘‘[1] اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’اللہ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جس نے ہم سے ایک حدیث سنی پھر اسے اس تک پہنچایا جس نے اسے نہ سنا تھا پس بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے فقہ کے حامل اس تک فقہ کو لے جاتے ہیں جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔‘‘[2] اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم تک لے جائے تاکہ میں (انھیں ) اپنے رب کا کلام پہنچا دوں ، کیونکہ قریش نے مجھے اس بات سے روک دیا ہے کہ میں اپنے رب کا کلام دوسروں تک پہنچاؤں ۔‘‘[3] رہا ان لوگوں کا یہ قول کہ ’’رب تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ لوگوں کی ایک جماعت پر اس کے کچھ اسرار کو ظاہر کیا ہے اور انھیں اس کے بیان سے گنگ اور اس کے پھیلانے سے عاجز کر دیا ہے۔‘‘ تو ان لوگوں کی اس بات کا یہ جواب دیا جائے گا کہ رب تعالیٰ کے سب سے برگزیدہ بندے تو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مرسلین عظام علیہم السلام ہیں ۔ پھر نبیوں سے رسول افضل ہیں اور ان میں بھی اولوالعزم رسول زیادہ افضل ہیں اور اولوالعزم رسولوں میں سب سے افضل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو رب تعالیٰ نے ان لوگوں کے اسرار کو ظاہر نہیں کیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب بندوں سے زیادہ اور کامل ترین توحید کا عرفان حاصل تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود رب تعالیٰ کے ان پیغمبروں نے اس کی توحید پر کلام بھی کیا، اس کو بیان کیا اور اسے پھیلایا بھی۔ کوئی آدمی کسی بھی نبی سے یا اس کے وارث سے یہ بات نقل نہیں کر سکتا کہ اس نبی نے اس بات کا دعویٰ کیا ہو کہ وہ ایک ایسی توحید جانتا ہے جسے بیان کرنا ممکن نہیں ۔ بلکہ یہاں تو دل کی ہر بات کی تعبیر بیان کی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بسا اوقات اسے سمجھنے والے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اب یا تو یہ کہا جائے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالیٰ کی توحید کا جو عرفان حاصل تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کرنے سے عاجز تھے، تو بلاشبہ یہ خلافِ واقع بات ہے۔
Flag Counter