Maktaba Wahhabi

286 - 702
پھر اگر تو یہ کہا کہ ان لوگوں کی بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ ظاہر ہونے والی توحید دراصل رب تعالیٰ کی اپنی ذات ہے جو اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ متحد ہو جانے یا ان میں حلول کر جانے کی وجہ سے ان کے جیوں میں خود اپنی توحید بیان کرتا ہے، تو یہ بعینہٖ نصاریٰ والا قول ہے، جو عقل و شرع دونوں کے نزدیک باطل ہے۔ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی ایسی توحید و معرفت اور ایسا ایمان دیتا ہے جو دوسروں کو نہیں دیتا تو یہ بات حق ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ رب تعالیٰ ان کے دلوں میں جس بات کو قائم فرماتا ہے، وہ خود رب خالق کی ذات نہیں ہوتی بلکہ یہ اس کی ذات کا علم، اس کی محبت، اس کی معرفت اور اس کی توحید ہوتی ہے۔ اور مثل اعلیٰ کو پیش کر کے اس کی تفسیر بیان کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰے فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ (الروم: ۲۷) ’’اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی شان اسی کی ہے۔‘‘ یعنی زمینوں اور آسمان والوں کے دلوں میں اس کی اعلیٰ مثال ہے اور اسے مثالِ حبی اور مثال علمی کہا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایک ناقص العقل کو جب کسی سے بے پناہ محبت ہو جاتی ہے اور وہ اس کی محبت میں فنا ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اسے اپنے قلب میں اس کے سوا اور کچھ نظر ہی نہیں آتا تو وہ یہ گمان کر بیٹھتا ہے کہ نفس محبوب اس کے دل میں آ گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ محبوب بہرحال ایک دوسری جگہ ہوتا ہے۔ جیسے اپنے گھر میں یا مسجد میں یا کسی بھی دوسری جگہ۔ البتہ اس محب کے قلب میں جو ہوتا ہے وہ اس کی مثال ہے نہ کہ اس کی ذات۔ لوگ ایسا بہت کہتے ہیں تو میرے دل میں بستا ہے، تو تو میرے جگر میں رہتا ہے۔ تو اس سے مراد مثال ہوتی ہے ناکہ اس کی ذات کیونکہ خود قائل کی مراد بھی اس کی ذات نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس دوسرے کی ذات اس سے جدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ’’تو میری آنکھوں کے سامنے ہے، یا تو ہمیشہ میری زبان پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے: ’’تیری مثال میری آنکھوں میں ہے اور تیرا ذکر میرے منہ میں ہے اور تیرا ٹھکانا میرے دل میں ہے تب پھر تو مجھ سے اوجھل کیونکر ہے؟!‘‘ اور ایک شاعر کہتا ہے: ’’وہ میرے دل میں رہنے والا اور اسے آباد کرنے والا ہے۔ سو میں اسے بھولتا نہیں اور اسے یاد کرتا رہتا ہوں ۔‘‘ کہ یہاں آدمی نے اپنے محبوب کو اپنے دل کا باسی اور اس کا آباد کرنے والا قرار دیا ہے اور وہ اسے بھولتا نہیں اور یہ مراد نہیں کہ اب محبوب کی ذات اس کے دل میں آ گئی ہے جیسا کہ ایک گھر میں ایک رہنے والا آ بستا ہے۔ بلکہ حاصل ہنے والا یہ امر مثال علمی ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے: ’’یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میں ان کا مشتاق ہوں اور ہر آنے جانے والے سے ان کا پوچھتا ہوں حالانکہ وہ
Flag Counter