Maktaba Wahhabi

30 - 702
۸۔ آٹھویں خصوصیت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا:’’ میرے بعد آپ ہر مومن کے دوست ہیں ۔‘‘ ۹۔ نویں خصوصیت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ علی رضی اللہ عنہ کے سوا باقی سب لوگوں کے وہ دروازے بند کردیے جائیں ۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بحالت جنابت مسجد نبوی میں سے گزرا کرتے تھے۔اسکے علاوہ آپ کا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ ۱۰۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)) ’’ جس کا میں دوست ہوں ‘علی بھی اس کا دوست ہے ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا گیا ہے کہ: آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ روانہ کیا۔ چنانچہ آپ تین شب و روز چلتے رہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس بلوایا اور علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ سورۂ توبہ مکہ پہنچائیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں پہنچ کر روپڑے۔ اور عرض کیا:اے اﷲ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ نہیں البتہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ یہ سورت خود مکہ پہنچاؤں یا میرا کوئی اپنا آدمی یہ فریضہ انجام دے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جوابات] :یہ کسی مستند حدیث میں ثابت نہیں ہے۔ عمرو بن میمون کی روایت کردہ یہ روایت مرسل ہے( اس لیے کہ عمرو بن میمون نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت اسلام کی ا ور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل سکے) مزید براں اس حدیث کے بعض الفاظ ایسے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی طرف سے گھڑ کر منسوب کئے گئے ہیں ۔ مثلاً یہ فقرہ: (( لَا یَنْبَغِیْ اَنْ اَذْہَبَ اِلَّا وَ اَنْتَ خَلِیْفَتِیْ۔)) ’’میں اس صورت میں مدینہ سے باہر جا سکتا ہوں جب آپ میرے خلیفہ ہوں ۔‘‘ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ متعدد مرتبہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا نائب بنایا تھا۔ جب آپ نے حدیبیہ والا عمرہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ‘ اور مدینہ پر آپ کا خلیفہ کوئی اور تھا۔اس کے بعد آپ نے غزوہ خیبر کیا توحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ؛ اور مدینہ میں خلیفہ کوئی اور تھا۔ غزوہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ پر خلیفہ کوئی دوسرا آدمی تھا۔ ایسے ہی غزوہ حنین اور غزوہ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ میں خلیفہ رسول کوئی اور تھا۔ آپ نے حجۃ الوداع کیا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ حج پر تھے ‘ اور مدینہ پر حاکم کوئی اور تھا اور ایسے ہی غزوہ بدر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ‘ مدینہ میں کوئی دوسرا خلیفہ رسول تھا۔ یہ تمام باتیں صحیح اسناد کے ساتھ معلوم شدہ ہیں ۔ اور ان پر اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔ اکثر غزوات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا کرتے تھے ؛ خواہ ان غزوات میں قتال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ :آپ کے خلیفہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہی افضل ہیں ۔تو اس سے لازم آتا ہے کہ اتنے
Flag Counter