Maktaba Wahhabi

331 - 702
قول نقل نہیں کیا؛ جیسا کہ ’’ہلال‘‘[نیا چاند] کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ﴾ (البقرۃ: ۱۸۹) ’’وہ تجھ سے نئے چاند کے متعلق پوچھتے ہیں ، فرمادیں : لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں ۔‘‘ پس انہوں نے اس میں اہل حساب کا ذکر نقل کیا ہے۔اور اسے فلاسفہ کا قول قرار دیا ہے۔ اور جہمیہ کاعقیدہ ذکر کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ’’قادر مختار میں روشنی پیدا ہوتی ہے جس کا نہ کوئی سبب ہوتا ہے اور نہ ہی حکمت ۔‘‘[1] اسی طرح رازی جب بارش پر کلام کرتا ہے تو ان لوگوں کا کلام اورعقیدہ ذکر کرتا ہے جن کے نزدیک بارش صرف اوپر چڑھنے والے آبی بخارات سے حاصل ہوتی ہے جو فضا میں جمع ہوتے ہیں ۔ اور ان کا عقیدہ بھی ذکر کرتے ہیں جو کہتے ہیں : ’’ بارش کو اس فاعل مختار نے بلاسبب پیدا کیا ہے۔‘‘اور ایک قول یہ ذکر کرتے ہیں :’’ بارش افلاک سے نازل ہوتی ہے۔‘‘ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ موصوف اپنی تفسیر میں تو اس قول کو ذکر کرتے ہیں [2] لیکن ایک دوسری جگہ میں جزم کے ساتھ اسے فاسد قول بھی قرار دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمہم اللہ ، ائمہ مسلمین بلکہ سلف و خلف جملہ اہل علم مسلمانوں میں سے کسی کا بھی یہ قول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بارش بادلوں سے اترتی ہے۔ لغت اور قرآن میں ’’سماء‘‘ ہر بلند چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ بلند چیز کا اسم جنس ہے۔ یہ صرف اسی چیز کے ساتھ متعین ہوتا ہے جس کی طرف اس کی اضافت کر دی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ﴾ (الحج: ۱۵) ’’تو وہ ایک رسی آسمان کی طرف لٹکائے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً﴾ (الانعام: ۹۹) ’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں سے پانی اتارا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ئَ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ﴾ (الملک: ۱۶)
Flag Counter