Maktaba Wahhabi

342 - 702
بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ذہن میں نہیں ، وہ ذہن میں ہوتی ہے۔ بلکہ انسان جب کسی ماہیت کا ذہن میں تصور کرتا ہے جس کی تقدیر اسے ممکن ہوتی ہے، وہ اس کے ذہن میں ذہن نہیں ہوتی باوجودیکہ اس کی تقدیر کا اس کے ذہن میں نہ ہونا بھی تو اس کے ذہن میں ہی ہوتا ہے، چاہے وہ تقدیر ممتنع ہی ہو۔ بلکہ ان دونوں ماہیتوں میں فرق کرنا واجب ہوتا ہے: ۱۔ وہ ماہیت جو ذہن میں ہونے کے ساتھ مقید ہو۔ ۲۔ وہ ماہیت جو مطلق ہو، جو نہ تو ذہن میں مقدر ہو اور نہ خارج میں ۔ باوجودیکہ اس بات کا علم بھی ہوتا ہے کہ ایسی مطلق ماہیت صرف ذہن میں ہی ہوتی ہے گو کہ ذہن ایسی ماہیت کے ذہن میں ہونے سے اعراض بھی کر رہا ہو۔ پس ماہیت کا ذہن میں ہونا ایک اور چیز ہے اور اس کے ذہن میں ہونے کا علم ہونا ایک اور چیز ہے۔ یہ فلاسفہ چند چیزوں کو متصور اور مقدر کرتے ہیں جو صرف ذہن میں ہی ہوتی ہیں ۔ لیکن انسان جس وقت ذہن میں کسی بات کا تصور اور اسے مقدر کر رہا ہوتا ہے تو اسے اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اس کے ذہن میں بھی ہے یا نہیں ؟ جیسے انسان خارج میں ایک چیز دیکھتا ہے اور وہ اس چیز کے دیکھنے میں ایسا مشغول ہو جاتا ہے کہ اسے اس بات کا بھی دھیان نہیں رہتا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کیفیت کو فنا کا نام دیا ہے جس میں وہ مذکور کی وجہ سے اس کی یاد سے فنا ہو جاتا ہے اور اپنے محبوب کی وجہ سے اس محبت سے اور اپنے معبود کی وجہ سے اس کی عبادت سے فنا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے وہ ایک ایسی چیز فرض کر لیتا ہے جو خلافِ واقع ہوتی ہے جسے یاقوت کا پہاڑ، پارے کا سمندر وغیرہ فرض کر لینا (جو حقیقت میں پائے ہی نہیں جاتے)۔ غرض خلافِ واقعہ امور کو فرض کرنا یہ اعتقاداتِ باطلہ کو فرض کرنا ہے۔اور اعتقاداتِ باطلہ صرف اذہان میں ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جوکسی ایسی ماہیت کو فرض کرتا ہے جو نہ تو ذہن میں ہو اور نہ خارج میں ؛ تووہ ایسے ہی ہے جو کسی ایسے موجود کو فرض کرتا ہے کہ جو نہ تو واجب ہو نہ ممکن۔ نہ قدیم ہو اور نہ حادث اور نہ قائم بنفسہٖ ہو اور نہ قائم بالغیر ہو۔ بلاشبہ یہ تقدیر ذہن میں ہی ہوتی ہے۔ ہم نے اس پر مفصل کلام کر دیاہے۔اوریہ واضح کیا ہے کہ بہت سے اہل نظر کا تقدیراتِ ذہنیہ سے امکاناتِ خارجیہ پر استدلال کرنا باطل و فاسد ہے۔ جیسے رازی وغیرہ کا قول ہے کہ ’’ہم لوگ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ موجود یا تو عالَم میں داخل ہے یا اس سے خارج؛ اور یا نہ تو عالم میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج؛ اور ہر موجود یا تو اپنے غیر کے مباین ہے یا اس کے موافق ہے اور یا نہ تو مباین ہے اور نہ موافق۔ یہ قول تیسری قسم کے ممکن ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں : ہر موجود یا تو متحیز بنفسہٖ ہے یا متحیز بالغیر۔ یا نہ متحیز اور نہ قائم بالمتحیز۔ تو یہ قول تیسری قسم کے امکان پر دلالت کرتا ہے؛ مگر یہ غلط ہے۔ کیونکہ یہ کہنا قائل کے اس قول کی طرح ہے: ’’ہر موجود یا تو قائم بنفسہٖ ہے یا قائم بالغیر ؛ یا پھر نہ قائم بنفسہٖ ہے یا نہ قائم بالغیر ۔ کہ یہ قول تیسری قسم کے امکان پر دلالت کرتا ہے جو غلط ہے۔‘‘ اسی طرح یہ کہنا کہ ہر موجود یا تو قدیم ہے یا محدث ؛ اور یا نہ قدیم ہے اور نہ حادث۔ اور ہر موجود یا تو واجب ہے یا
Flag Counter