Maktaba Wahhabi

364 - 702
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تمام صحابہ سے بڑھ کر محبوب تھے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے تابعدار و فرمانبردار تھے۔ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:’’ جب سورۂ توبہ دے کر آپ کو مکہ روانہ کیا توتین دن واپس بلا لیا۔‘‘ [جواب] : بیان کردہ قصہ کا جھوٹ ہونا صاف ظاہر ہے ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سن نو ہجری میں امیر حج بنایا تو آپ ایسے ہی امیر رہے یہاں تک کہ آپ نے حج ادا کیا ؛ اورپھر حج پورا کرنے کے بعد مدینہ واپس لوٹ گئے۔ اس حج میں آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام نافذ کیے ۔ اس لیے کہ اس وقت تک مشرکین بھی حج کیا کرتے تھے ۔بیت اللہ کا ننگا طواف ہوتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے مابین مطلق عہدو پیمان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔اور آپ کو حکم دیا کہ آپ اعلان کریں کہ : ٭ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے۔ ٭ بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر نہ کیا جائے۔ اس سال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ منادی کرائی۔اور حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے یہ اعلان کیا ۔ لیکن اتنی بات ضرورہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حج کے لیے نکل چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ کے پیچھے بھیجا تاکہ مشرکین کے عہد ومیثاق انہیں واپس لوٹا سکیں ۔ کہتے ہیں :عربوں کی عادت تھی کہ عہد و پیمان وہی لوگ ختم کرتے تھے جو خود یہ عہد باندھتے یا پھر ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی ایک ان معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا۔ توآپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے روانہ فرمایا تاکہ آپ مشرکین کے ساتھ کئے گئے عہدوپیمان ختم کرنے کا اعلان کردیں ۔آپ کو بھیجنے کی کوئی دوسری وجہ نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور جملہ امور حج میں آپ کی اتباع کرتے رہے۔جس طرح کے باقی تما م رعیت آپ کی اطاعت کررہی تھی۔ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے بعدکا ہے ‘ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں نائب بنایا گیا تھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا :’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘ پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوامیر حج بنایا ۔ اور پھر آپ کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ کا مامور بنا کر روانہ فرمایا۔اس میں دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ نہیں تھے؛ سوائے گنتی کے ان چند دنوں کے جب آپ مدینہ سے باہر تھے۔ پھر سن نو ہجری میں حج کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ پر امیر مقرر کردیا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی؛ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا۔ حضرت ابو موسی اور حضرت علی رضی اللہ عنہمااس وقت واپس آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے [غائبانہ طور پر ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت پر احرام باندھا اور تلبیہ کہا تھا۔ جب کہ حضرت
Flag Counter