Maktaba Wahhabi

381 - 702
’’ اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کردیا،اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کردیا،اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کردیا۔‘‘[ [وقد سبق تخریجہ ؛صحیح بخاری ، ج۳ ح۱۷۸۰] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قتل کا انکار کررہے ہیں ؛ مگر اس کے باوجود آپ نے اسامہ سے نہ قصاص لیا ؛ نہ ہی دیت واجب کی اور نہ ہی کفارہ اداکرنے کا کہا۔ محمد بن جریر طبری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمااور قتادہ رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے : [ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ] : ﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ﴾ [النساء ۹۴] ’’ جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں ۔‘‘ آپ فرماتے ہیں : یہ آیت مرداس کے بارے میں نازل ہوئی۔مرداس غطفان کا ایک آدمی تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا؛ اس پر امیر لشکر غالب لیثی تھے۔[اس قوم کے] کچھ لوگ بھاگے مگر وہ نہیں بھاگا؛ انہوں نے کہا : میں ایمان لاچکا ہوں ۔صبح کے وقت لشکر کے گھوڑے سوار وہاں پہنچ گئے ؛ انہوں نے سلام کیا ‘ مگر ان لوگوں نے اسے قتل کرکے اس کا مال لے لیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا مال واپس کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کے گھر والوں کو دیت بھی ادا کی جائے۔ اور مؤمنین کو منع کردیا گیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں ۔ ایسے ہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب تأویل کی وجہ سے بنو جذیمہ کو قتل کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اٹھاکر اللہ کی بارگاہ میں دعا کی : ’’ اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا ہے ‘ میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں ۔‘‘ [البخاری ۴؍۱۰۰] مگر اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا؛چونکہ آپ متأول تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تاویل کی وجہ سے بنو جذیمہ کے کئی مؤمنین کے قاتل کو قتل نہیں کررہے ؛ تو پھر یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے حجت کیسے نہیں ہوسکتی کہ آپ نے تاویل کی وجہ سے مالک بن نویرہ کو قتل کرنے والے کو قتل نہ کیا ۔‘‘ اس سے پہلے رافضی کا اعتراض گزر چکا ہے جو اس نے بنوجذیمہ کے معاملہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر کیا تھا۔ رافضی کو پتہ ہے کہ[بنو جذیمہ کے مسئلہ پر]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قتل نہیں کیا۔تو پھر اس چیزکو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں حجت کیسے تسلیم نہیں کرسکتا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوئی ہوائے نفس کی پیروی میں لگتا ہوتاہے اسے اس کی گمراہی اندھا کر دیتی ہے۔[اوروہ کبھی راہ حق پر نہیں آسکتا ]۔ ٭ شیعہ مصنف کا کہنا کہ : ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔‘‘
Flag Counter