Maktaba Wahhabi

382 - 702
٭ جواب : اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ تھا۔ اس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کیا جائے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ آپ کو قتل کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم نہیں تھے۔ اہل سنت اور شیعہ دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس وجہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہیں تھا کہ وہ اپنی رائے چھوڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی اتباع کریں ۔ اور کسی شرعی دلیل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے راجح ہے۔تو اب کسی کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ وہ اس معاملہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں عیب شمار کر ے؟ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جو لوگوں میں سے سب سے کم علم و دین رکھتا ہو۔ ہمارے ہاں کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہوسکاکہ معاملہ کی صورتحال ایسی تھی جس کی وجہ سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا واجب ہورہا ہوتا ۔ رافضی مصنف کا یہ کہنا کہ: ’’ انہوں نے مالک بن نویرہ کے قتل کی رات ہی اس کی بیوی سے شادی کرلی ۔‘‘ ٭ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔بالفرض اگر اسے ثابت مان بھی لیا جائے تو تاویل اس بنا پر رجم کرنے میں مانع ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ : فقہاء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ فوتگی[بیوگی] کی عدت کیا ہے؟ اورکیا یہ عدت کافر کے لیے بھی ہے ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ ایسے ہی ذمی عورت کی عدت وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔اس میں بھی مسلمانوں کے ہاں دو قول مشہور ہیں ۔ بخلاف طلاق کی عدت کے ۔ اگر طلاق میں وطی کا سبب موجود ہو تو برأت رحم تک انتظار واجب ہے۔ جبکہ وفات کی عدت صرف عقد نکاح کرلینے سے واجب ہوجاتی ہے۔لیکن پھر اگر دخول سے پہلے شوہر مر جائے تو کیا کافر کی عدت بھی ہوگی یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ اور ایسے ہی اگر کافر نے دخول بھی کیا اور دخول کے بعد ایک حیض آگیا ہو [تو کیا اس پر عدت ہوگی یا نہیں ؟]۔ یہ مسائل اس وقت ہیں جب کافر اصلی کافر ہو [یعنی مرتدنہ ہو]۔جب کہ مرتد اگر قتل کردیا جائے؛ یا اپنے ارتداد پر ہی مر جائے ؛ تواس صورت میں امام شافعی؛ امام احمد ؛ ابو یوسف؛ اورمحمد رحمہم اللہ کے ہاں اس پر کوئی عدت وفات نہیں ۔ بلکہ وہ اسے فُرقہء بائنہ شمار کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ شوہر کے مرتد ہونے سے نکاح باطل ہوگیا تھا۔ یہ جدائی امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں طلاق نہیں ہے ۔ جب کہ امام ابو حنیفہ اورامام مالک رحمہم اللہ کے ہاں طلاق ہے۔اسی وجہ سے اس پر عدت وفات کو واجب نہیں سمجھتے ۔ بلکہ اس پر دائمی جدائی کی عدت شمار کرتے ہیں ۔اور اگر اس مرتد نے عورت کے ساتھ دخول نہیں کیا تھا تو پھر اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر وہ دخول سے پہلے طلاق دے دیتا تواس پر کوئی عدت نہ ہوتی۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کو مرتد سمجھ کر قتل کیا تھا۔ اگر مالک بن نویرہ نے اپنی بیوی سے اس سے پہلے دخول نہیں کیا تھا تو پھر تمام علماء کے نزدیک اس پر کوئی عدت نہیں تھی۔اوراگر اس کے ساتھ دخول کیا تھا تو پھر بھی بعض علماء کرام کے نزدیک اس پر ایک حیض کی عدت تھی؛ اس لیے کہ استبراء رحم واجب ہے۔ تو ایسا بھی
Flag Counter