Maktaba Wahhabi

413 - 702
کہ صرف مکلف پر ہی قائم کی جاسکتی ہیں ۔ شریعت میں بچوں کے نماز ترک کرنے پر ان کے لیے سزا موجود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب لڑکا سات سال کا ہوجائے تو اسکو نماز پڑھنے کی تاکید کرو اور جب دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسکو مارو؛ اور ان کے بستر علیحدہ کردو۔‘‘[1] ایسے ہی مجنون اگر دوسرے لوگوں پر حملہ کرتا ہو؛ اور اس کے قتل کیے بغیر اس کے حملوں سے دفاع ممکن نہ ہو‘تواسے قتل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے ہی اگرچوپایہ بھی لوگوں پر حملہ کرتا ہو‘اوراس کو مارے بغیر جان محفوظ کرنا ممکن نہ ہو تو اسے مارا جاسکتاہے۔اور اگریہ حیوان کسی کی ہی ملکیت ہو تو اس کے مارنے والے پر مالک کے لیے کوئی تاوان نہیں ۔ یہ جمہور علماء امام مالک ؛ امام شافعی رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مارنے والا مالک کوتاوان ادا کرے گا ؛ اس لیے کہ اس نے مصلحت کے تحت قتل کیاہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے [کوئی جانور ] لڑائی میں مارا جائے[تواس کا تاوان ادا کرنا ہوگا] ۔ جب کہ جمہور کہتے ہیں : لڑائی میں انسان اسے اپنی وجہ سے مارتا ہے ‘جانور کی تعدی کی وجہ سے نہیں مارتا ۔ جب کہ اس موقعہ پر جانور کی تعدی کی وجہ سے اسے مارا گیا ہے؛ [اس میں اپنی کسی غرض کا دخل نہیں]۔ خلاصہ کلام ! غیر مکلف جیسے : بچہ ‘پاگل اور جانورکو اس کی ضرر سے بچنے کے لیے قتل کرنا بالاتفاق نصوص کی روشنی میں جائز ہے۔ ہاں بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جیسے : جنگ ؛ شب خون مارنا ؛ منجنیق وغیرہ سے حملہ کرنا؛ اور ان کے حملوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں قتل کرنا۔ وہ حدیث جس میں آتا ہے : ’’ تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔اس سے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ان پر حد قائم نہیں کی جاسکتی۔إلا یہ کہ اس کے لیے ایک اور مقدمہ قائم کیا جائے ؛ یہ کہا جائے کہ :’’ جس کے اعمال لکھے نہیں جاتے ؛ یعنی جو مرفوع القلم ہے ؛ اس پر کوئی حدبھی نہیں ہے ۔ اس مقدمہ میں ایک الجھاؤ ہے ۔ وہ یہ کہ : کبھی کبھار مرفوع القلم کو بھی سزا دی جاتی ہے۔اور کبھی سزا نہیں دی جاتی۔ ان دونوں صورتوں کے مابین فرق کرنے کے لیے انتہائی خفی علم کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی مجنوں کسی عورت کے ساتھ زبردستی کرنا چاہے؛اور اس کو قتل کیے بغیر اس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہ ہو ‘ تو اس کے لیے اس پاگل کو قتل کرنا جائز ہے۔ بلکہ اہل علم کے اجماع اور سنت کی روشنی میں اس عورت پر ایسا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اگر بعض مجتہدین کا یہ اعتقاد ہو کہ زنا کرنا بھی زیادتی ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عدوان سے تعبیر کیا ہے ‘ فرمایا: ﴿فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ﴾ [المؤمنون۷] ’’جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں ۔‘‘
Flag Counter