Maktaba Wahhabi

414 - 702
پس اس حکم کی روشنی میں مجنون کو قتل کیا جائے گا ؛ تاکہ اس پر واضح ہوجائے کہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدہے۔اوریہ حد اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب مجرم کو اس فعل کے حرام ہونے کا علم ہو۔مجنوں کو تو حلت و حرمت کا کوئی علم نہیں ہوتا ۔ [یہ کہنے والے پر اس کا ]یہ قول اتنا براوہی سمجھے گا؛جس سے اس خود کسی دوسرے پر اس سے بھی قبیح حرکت ہوئی ہو۔‘‘ اگر کوئی کہنے والا کہے کہ : مسلمانوں کوقتال کرنا ان کے لیے سزا ہے۔اور یہ سزا اس وقت تک نہیں دی جاسکتی جب تک انہیں حرام یا واجب ہونے کا علم نہ ہو۔اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بر سر پیکار تھے ؛ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا بھی کوئی گناہ ہے۔ توپھر جس چیز کو وہ گناہ نہیں سمجھتے تھے اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان سے جنگ کرنا جائز نہ تھا۔اگرچہ وہ غلطی پر تھے ؛ تاہم زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے انہوں نے واجب اطاعت کوترک کردیا تھا۔لیکن ان میں سے اکثر لوگ یا بہت سارے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت و متابعت ان پر واجب ہے ۔ وہ ایسے شبہات اور تأویلات کا شکار تھے جو کہ اس اطاعت کے واجب ہونے کے علم میں رکاوٹ تھے۔ تو پھر ایسے انسان کومعصوم الدم ہونے کے باوجود قتل کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے جو یہ جانتا ہی نہ ہوکہ اس نے کوئی واجب ترک کیا ہے؟ یا اس نے کسی حرام فعل کا ارتکاب کیا ہے ؟اگریہ تمام امور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت میں باعث طعن و قدح نہیں ہوسکتے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسے معمولی امور ان کی خلافت و امامت میں سبب ِ قدح کیسے ہوسکتے ہیں ؟ خاص کر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ترکِ واجب پر قتال اس وقت مشروع ہوتا ہے جب قتال کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی اس ترک ِ واجب کی خرابی سے کم تر ہو۔ اور قتال کرنے کی مصلحت اس کے ترک کرنے کی مصلحت سے بڑھ کر ہو۔ جب کہ معاملہ ایسا نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس قتال سے مطلوب اطاعت حاصل نہ ہوسکی۔ بلکہ اس وجہ سے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیادہ نافرمانی کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کی جماعت سے خوارج کا پورا لشکر آپ کی نافرمانی کرتے ہوئے نکل گیا۔ اور بہت سارے آپ کے لشکر کے کمانڈر ہی آپ سے لڑنے لگے۔ان میں سے اکثر لوگ آپ کی مطلق اطاعت نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اس قتال سے پہلے وہ قتال کے بعد کی بہ نسبت زیادہ فرمانبردار و اطاعت گزار تھے۔ ٭ اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اس مسئلہ میں مجتہد تھے ؛ اور آپ کا خیال تھا کہ شاید اس قتال سے لوگ آپ کی اطاعت میں داخل ہوجائیں گے ۔ ٭ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : جب ایسا اجتہاد قابل مغفرت وبخشش ہوسکتا ہے ؛ حالانکہ اس اجتہاد کی وجہ سے ہزاروں مسلمان قتل ہوئے ؛ خرابی و فساد ہی پیدا ہوا ؛ کوئی اصلاح یا خیر کا کام نہ ہوسکا۔ توپھر کیا ایک آدمی کے قتل کے بارے میں اجتہاد قابل مغفرت نہیں ہوسکتا جب کہ اس ایک آدمی کو قتل کرنے کی وجہ سے مصلحت بھی حاصل ہوتی ہو؛ اور لوگوں کو بے حیائی وبرائی کے کاموں سے روکنے کے لیے زجر و تنبیہ کا سامان بھی ہورہا ہو؟ حالانکہ آپ نے پھر اس آدمی کو قتل بھی نہیں کیا ؛ صرف قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا؛ بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔ حکمران یا ولی امر کو احکام حدود کی جزئیات کی معرفت کی بہ نسبت عام سیاست کے کلی احکام کی معرفت کی ضرورت
Flag Counter