Maktaba Wahhabi

455 - 702
چاہت کے مطابق۔اور یہ بھی دلالت ثابت ہوئی کہ یہ مال آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے منسوب ہے؛ نہ کی آپ کے اس مال کا مالک ہونے کی وجہ سے ۔‘‘ یہ مسئلہ مال غنیمت سے آپ کے حصہ ؛ اور آپ کے لیے وصیت کیے گئے مال کے برعکس ہے۔ یہ مال آپ کی ملکیت ہوا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فئے کواللہ تعالیٰ کا مال کہا جاتاہے۔اس کا معنی یہ ہوتاہے کہ ایسا مال جو وہیں پر خرچ کیا جائے جہاں کا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے[یعنی]اللہ کی اطاعت کے امور میں لگایا جائے۔ اسے کوئی اپنی مرضی کے کاموں میں نہیں لگا سکتا؛ بھلے ایسا کرنا مباح بھی ہو۔ بخلاف ان اموال کے جو ذاتی ملکیت ہوتے ہیں ۔یہ اس مال کے برعکس ہے جس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے: ﴿وَّآتُوہُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ﴾ [النور ۳۳] ’’اور انہیں اللہ تعالیٰ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے۔‘‘ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ؛ بلکہ اسے وہ مال بتایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾ [الحشر ۷] ’’ اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے ‘‘ ان لوگوں کابطور خاص ذکر کرنا ان کے لیے خصوصی رعایت اور اہتمام کی وجہ سے ہے؛ نہ کہ یہ مال صرف انہی کے ساتھ خاص ہے ۔ اسی لیے آگے ارشاد فرمایا: ﴿کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُولَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ﴾ [الحشر ۷] ’’تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو۔‘‘ یعنی آپس میں ہی لیتے دیتے رہو؛ اور فقرآء و مساکین کو اس سے محروم رکھو۔اور اگر یہ مال صرف فقیروں کے ساتھ خاص ہوتا تو پھر اس میں اغنیاء کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا؛ اور مال داروں کے درمیان ہی اس کے گردش کرنے کا کوئی معنی نہ رہ جاتا ۔ پھر آگے چل کر فرمایا : ﴿وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُواْ﴾ [الحشر ۷] ’’اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ ۔‘‘ تو یہ بات دلیل سے ثابت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت اور مال فئے کو صرف تقسیم کرنے والے ہیں ۔ اگرچہ اس کی تقسیم کے مصارف دیگر فرائض ؍حصوں کی طرح طے شدہ ہیں ۔ اس کے دینے نہ دینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے احادیث ثابت شدہ ہیں جو اس مذہب
Flag Counter