Maktaba Wahhabi

454 - 702
یہ تمام لوگ مال فئے کے مستحق ہیں ۔ تو پھر اس سے خمس کیسے مراد لی جاسکتی ہے؟ بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جب آپ نے یہ آیت تلاوت کی توارشاد فرمایا: ’’ یہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ۔‘‘ جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے موافقین ان کی موافقت کرتے ہیں جو کہتے ہیں : یہ لوگ خمس کے مستحق تھے۔ لیکن وہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اپنے حصہ کے مستحق تھے۔ اور آپ کے اقرباء آپ کی نصرت کی وجہ سے اس حصہ کے مستحق تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے آپ کا حصہ ساقط ہوگیا تو آپ کے اقرباء کا حصہ بھی ساقط ہوگیا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ساقط ہوا تھا۔ جب کہ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں : ’’اموال ِ فئے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ آپ کی موت کے بعد تقسیم نہیں کیا جائے؛ اسے یا تو اسلحہ وغیرہ پر لگایا جائے گا یا پھر عمومی طور پر مطلق خیر کے کاموں میں لگایا جائے گا۔ پھر ان کا یہ بھی اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مالِ فئے آپ کی ذاتی ملکیت ہوا کرتا تھا؟ اس میں دو قول ہیں : پہلا قول :....ہاں ؛ جیسا کہ امام شافعی اور بعض اصحاب امام احمد رحمہما اللہ کا قول ہے۔ کیونکہ یہ مال آپ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ دوسرا قول :....یہ مال آپ کی ملکیت نہیں ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ آپ اس مال میں ایسے تصرف نہیں کیا کرتے تھے جیسے مالک اپنے مال میں تصرف کرتا ہے۔ پھر ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: قرابت داروں سے مراد اس متولی کے قرابت دار ہیں جو مال تقسیم کر رہا ہو۔ اور وہ اپنی زندگی میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے؛ اور آپ کے بعد جو بھی حاکم آئے گا وہی مراد ہوگا۔ اس پر دلیل وہ اس حدیث سے پیش کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کوئی لقمہ نہیں کھلایا؛ مگر وہ آپ کے بعد آنے والے والی کا حق ہے ۔‘‘ اس میں پانچواں قول : امام مالک اور اہل مدینہ اور اکثر سلف صالحین کا ہے رحمہم اللہ ؛کہ خمس اور فئے کے مصارف ایک ہی ہیں ۔ اور یہ سارے اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ویسے خرچ کیا جائے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے ہیں ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا ﴾[الحشر ۷] ’’جو کچھ تمہیں رسول اللہ دے دیں اسے قبول کرلو؛ اور جس سے منع کریں رک جاؤ۔‘‘ ایک صحیح حدیث میں ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! بیشک میں نہ ہی کسی کو دیتا ہوں اور نہ ہی کسی سے روکتا ہوں ؛ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں ؛ وہی کرتا ہوں جس کا مجھے حکم دیا جاتا ہے ۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مال اسی کو دیا کرتے تھے جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا تھا؛ نہ کہ اپنی
Flag Counter