Maktaba Wahhabi

458 - 702
اس کا شوہر حج وداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں انتقال کر گیا تھا۔ اگر اپنے رائے سے فتوی دینا گناہ ہے توحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کاگناہ؛ جنہوں نے رائے کی بنا پر مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھا؛ اس گناہ سے بڑا ہے جس میں ایک جزوئی مسئلہ میں رائے سے فیصلہ کیا گیا ۔اگریہ رائے درست تھی تب ان ہی تک تھی اور اگر غلط تھی تب بھی ان ہی تک محدود تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ قیاس اور رائے کے باب میں بھی دوسرے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ حق ہیں ۔ اس لیے کہ دوسرے لوگوں کی نسبت آپ کی رائے زیادہ درست ہوا کرتی تھی۔اور آپ کی نسبت دوسروں کی رائے میں غلطی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی ہر رائے اور قیاس درست اور صواب پر ہوا کرتے تھے۔ پس جس رائے میں بڑی مصلحت پوشیدہ ہو وہ اس رائے سے بہتر اور افضل ہے جس میں کم یا ادنی درجہ کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آراء میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی مصلحتیں ہوا کرتی تھیں ۔ بہر حال جیسے بھی ہو اگر رائے محمود اور قابل تعریف ہے تو پھر اس لحاظ سے آپ کی باقی لوگوں کی نسبت اعلی و ارافع ہوا کرتی تھی۔ اور اگر قیاس و رائے مذموم ہے توپھر یہ مذمت دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپ کو بہت ہی کم لاحق ہوتی ہے۔اور اس پر سب سے بڑی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے ‘آپ فرماتے ہیں : ’’ماضی کی امتیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ان میں کچھ لوگ مُلہم ہوا کرتے تھے۔بیشک میری امت میں اگر کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘[یہ حدیث پہلے کئی بار گزرچکی ہے]۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ جس انسان کو الہام ہوتا ہو ؛ اس کی رائے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حق پر ہوتی ہے ۔ اس سے اوپر صرف نص کامرتبہ ہے جو صدیقین انبیاء کرام علیہم السلام سے حاصل کرتے تھے۔اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت بلند و عالیشان ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ باقی تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔مسند احمد کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے ۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے]۔ ٭ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’میں نے کبھی نہیں سنا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جس چیز کے بارے میں جس خیال کا اظہار فرماتے مگر وہ ہو بہو اسی طرح ہوا کرتی تھی۔‘‘[1] نصوص کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے دیگر اکابر صحابہ مثلاً حضرت عثمان و علی اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کی نسبت بہت زیادہ صائب ہوا کرتی تھی اور اس کے نتائج و ثمرات بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے قابل مدح و ستائش ہوا کرتے تھے۔ آپ نے بلاد روم و فارس فتح کیے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے اسلام کو عزت دی۔ اور کفار و منافقین کو ذلت و رسوائی سے دو چار کیا۔آپ نے سب سے پھلے دیون مرتب کیے۔لوگوں کے لیے وظائف مقرر فرمائے ۔اور اہل ذمہ پر
Flag Counter