Maktaba Wahhabi

464 - 702
جیسا کہ تشہد کی مختلف اقسام ہیں ؛ جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تشہد جو کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا تشہد جو مسلم نے روایت کیا ہے۔ ان کے الفاظ قریب تر ہیں ۔ اور ایسے ہی مسلم کی روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکا تشہد بھی ہے۔ اور وہ تشہد جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لوگوں کو سکھایا تھا۔اور حضرت عبداللہ بن عمر؛ حضرت عائشہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم سے منقول تشہد جو اہل سنن نے ان حضرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ پس ہر وہ چیز جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو؛ وہ قابل قبول اور جائز ہے۔ اوراگرچہ لوگوں میں ہر کوئی کسی ایک قسم کے تشہد کو اختیار کرلیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو اس نے وہی سیکھا ہے؛ اور اب اس کی عادت بن چکی ہے۔ یا پھر وہ بعض وجوہات کی بنا پر اس کے راجح ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو۔ ایسے ہی اذان میں ترجیع اور ترک ترجیع کا مسئلہ بھی ہے۔ ترجیع صحیح مسلم میں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان میں ثابت ہے۔ اس کے شروع میں دو مرتبہ تکبیر کہی جاتی ہے۔ جیسا کہ امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور چار بار بھی تکبیر کہی جاسکتی ہے جیساے کہ ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ اور ترجیع کا ترک اہل سنن نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں نقل کیا ہے۔[1] ایسے ہی اقامت کو ایک ایک بار کہنے کا مسئلہ بھی ہے جو کہ حضرت بلال کی اذان سے ثابت ہے۔ اور صحیح مسلم میں دو دو بار اقامت حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا۔ امام احمد اور دوسرے محدثین فقہاء رحمہم اللہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اور اقامت لی ہے۔ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت ابو محذورہ کی اذان اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اقامت لی ہے۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اور ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اقامت لی ہے۔ یہ تمام امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں جائز ہیں ۔ اگرچہ بعض فقہاء نے ایسا کرنے کو نا پسند کیا ہے۔کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ اذان میں کوئی ایسی سنت ثابت نہیں ہے۔ مگر اس سے ان کے علم پر قدح نہیں آتی جنہوں نے سنت کا علم حاصل کیا ہو۔
Flag Counter