Maktaba Wahhabi

485 - 702
آپ نے عمر رضی اللہ عنہ جیسے متشدد کو ہم پر خلیفہ مقرر کردیا ہے۔ آپ اﷲکو کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’کیا تم مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو؟ میں بارگاہ ایزدی میں حاضر ہو کرکہوں گا کہ’’ میں نے سب سے بہتر شخص کو خلیفہ بنایا تھا۔‘‘ [1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہدمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شدت کی شکایت کی اور کسی چیز کی کوئی بھی پرواہ یا رعایت نہیں کی۔ لوگوں کی عادت ہے کہ جس شخص کے خلیفہ مقرر کیے جانے کی امید ہو، اس کی رعایت کرتے ہیں ، مبادا برسر اقتدار ہو کر وہ ان سے انتقام لینے پر آمادہ ہو جائے؛ اور پھر اس سے امیدیں اور لالچ بھی ہوتی ہے۔یہ چیز موجود ہے۔جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حق بات کہنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی پرواہ اور رعایت نہیں کی۔ تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رو رعایت کی اس وقت کیا ضرورت تھی؟ اس لیے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہ تھا؛ اور ابھی آپ خلیفہ بھی نہیں بنے تھے۔اگر لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی اب خلیفہ بننے کے حقدار ہیں تو وہ کبھی بھی آپ کی بیعت نہ کرتے ؛ اورنہ ہی آپ کو خلیفہ بناتے ۔ مندرجہ بالا بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو استحقاق کی بنا پر خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ایسے دلائل و براہین ہیں کہ ان پر غور و فکر کرنے سے ایک دانا شخص کی بصیرت وفراست میں اضافہ ہوتا ہے، مگر جاہل اور صاحب غرض عقل کا اندھا ہوتا ہے۔ جو شخص واقعات سے آگاہ اور دلائل سے باخبر ہو وہ ان دلائل کو دیکھ کر حق و انصاف کا ساتھ دے گا ۔اور اس میں صرف وہی انسان شک و شبہ کا شکار ہوسکتا ہے جو حالات و واقعات سے بالکل جاہل ہو۔اور نظرو استدلال سے بھی تہی دامن ہو۔ دلائل سے جہالت اور غور فکر میں کمی کے نتیجہ میں جہالت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ہاں جب انسان کو واقعات کا علم ہو؛ اور دلائل کو بھی جانتا ہو؛ اور غور و فکر اوراستدلال کے طریقہ کار سے بھی واقف ہو۔تووہ بغیر کسی شک و شبہ کے دو ٹوک طور پر کہہ سکتا ہے کہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے مستحق تھے۔اور جو لوگ اس وقت تک باقی رہ گئے تھے ان میں سب سے افضل تھے۔لوگوں کا بغیر کسی انکار کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اتفاق کرلینااس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک آپ سے زیادہ کوئی بھی خلافت کا اہل نہ تھا۔اگرچہ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے دل میں آپ کے خلیفہ بنائے جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یا تو ان کا اپنا اجتہاد ہے ؛ اور یا پھر خواہش ِ نفس کا غلبہ ۔مگر یہ بات آپ کی شان میں موجب قدح نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ کسے دوسرے کی ولایت میں ایسی کوئی بات موجب قدح نہیں ہوسکتی۔جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو امیر کارواں بنانا [ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا تھا؛ مگر آپ کی امارت پر کوئی فرق نہیں پڑا] ۔اور جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نائب اور خلیفہ بنانا [ اس
Flag Counter