Maktaba Wahhabi

497 - 702
لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دے سکتے ہیں جب کہ ان کے بعد کسی کو خلیفہ بھی مقرر نہیں کیا ؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ سب اپنے اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ ان کو قتل کرنے کی جرا ٔ ت کون کرتا؟ جبکہ ساری امت ان کی اطاعت گزار تھی؛ انکے ساتھ لشکر اور قبائل تھے۔ اگر سارے انصار مل کر بھی ان میں سے کسی ایک کو قتل کرنا چاہتے تو ایسا کرنے سے عاجز رہتے ۔اللہ تعالیٰ نے اس شر و فتنہ سے انصار کو محفوظ و مامون رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انصار کی ایک چھوٹی سی جماعت کو ان چھ حضرات کو اکٹھے قتل کرنے کا حکم بھی کیسے دے سکتے تھے ؟[ کس جرم کی بنا پر یہ حکم دیتے؟] اور اگر مان لیا جائے کہ آپ نے ایساکوئی حکم دیا بھی ہوتا تو کیا یہ حضرت خاموش رہتے ؟ اور انصار انہیں قتل کرنے پر قادر ہوجاتے؟ جب کہ وہ ایسی جگہ پر جمع تھے جہاں ان کا کوئی اور مدد گار بھی نہ تھا؟ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ چھ حضرات خلیفہ بننا پسند نہیں کرتے تھے؛ اور ان میں سے کوئی خلیفہ نہ بنا کوئی ساتواں آدمی خلیفہ بن گیا تو پھر ان کو قتل کرنا کس بنا پر جائز ہوا؟یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ؛ آپ کو ہمیشہ خلافت کی پیش کش کی جاتی رہی ؛ مگر آپ نے کبھی بھی اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن انہیں تو کسی نے بھی قتل نہیں کیا۔ حکمین کے موقع پر آپ کو خلافت کے لیے متعین کیا گیامگر آپ چھپ گئے ؛ پھر بھی کسی نے آپ کو کوئی تکلیف نہیں دی۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا کہ کسی شخص نے خلیفہ بننے سے انکار کیا ہو اور اس جرم میں اسے موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ یہ روایات ایسے جھوٹے کذاب کی انشاء پردازیاں ہیں جسے کوئی پتہ نہیں کہ وہ کیا لکھتا ہے اور کیا کرتا ہے نہ ہی شرعا اور نہ ہی عادتاً [اسے کسی چیز کا کوئی علم نہیں ]۔ مرکب جواب: یہ معاملہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہے : پہلی صورت : یاتوحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ دوسری صورت : آپ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اگر آپ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر اس کا انکارکرنا باطل ہے۔ اوراگر آپ نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا تو پھراگر شریعت کا تقاضا ہو کہ کسی کو قتل کیا جائے توکسی انسان کا جنتی ہونا ؛ یا اللہ کا ولی ہونا اس قتل میں مانع نہیں ہوسکتا۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدی عورت کو رجم کیا ؛اورفرمایا: ’’تحقیق اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اسے معاف کر دیا جاتا۔ اس سے بڑھ کر توبہ کیا ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنی جان ہی پیش کردی۔‘‘[ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا جنازہ ادا کیا گیا اور دفن کیا گیا]۔ [1]
Flag Counter