Maktaba Wahhabi

498 - 702
اس عورت کے لیے یہ گواہی دے رہے ہیں ۔لیکن جب حد اس پر ثابت ہوچکی تھی تو آپ نے اسے رجم کردیا۔ اگر کسی انسان پر قصاص واجب ہوجائے؛ اوروہ انسان بڑے اولیاء اللہ میں سے ہو؛ اور اس نے قتل عمد سے توبۃ النصوح [پکی اور سچی توبہ ] کرلی ہو۔توپھر بھی واجب ہوتا ہے کہ اسے مقتول کے ورثاء کے سپرد کیا جائے۔ اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں ۔تو اس کا قتل کیا جانا اس کے حق میں کفارہ ہوگا۔ جب قتل کے بغیر مصلحت پوری نہ ہوسکتی ہو تو تعزیر میں قتل کرنا ایک اجتہادی مسئلہ ہے ۔اورجیسا کہ مسلمان جاسوس کو قتل کرنا ۔اس میں مسئلہ میں علماء کرام کے دو قول ہیں ؛ امام احمد کے مذہب میں بھی یہی دوروایات ہیں ۔ پھلا قول: اس کو قتل کرنا جائز ہے۔ یہ امام مالک کامذہب ہے ‘اورابن عقیل نے بھی یہی اختیار کیا ہے۔ دوسرا قول: اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ امام شافعی کا مذہب ہے۔اور قاضی ابو یعلی اور دوسرے علماء نے بھی اسے اختیار کیا ہے ۔ رحمہم اللہ ۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کوئی آئے اور تمہارا نظام ایک آدمی کے ہاتھ میں ہو‘ اوروہ تمہاری جماعت میں تفریق پیداکرنا چاہتا ہو تو اسے قتل کردو ۔‘‘ [صحیح مسلم ۳؍۱۴۷۹؛ وسنن ابو داؤد ۴؍۳۳۴]۔ اور شراب پینے والے کے بارے میں فرمایا: ’’اگر یہ چوتھی بار شراب پئے تو اسے قتل کردو۔‘‘ [سنن أبي داؤد ۴؍۲۲۸؛ الترمذي ۲؍۴۴۹]۔ پھر اس حکم میں علماء کا اختلاف ہے؛ کیا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ یا باقی ہے ؟ پھر اگر مان لیاجائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اولین میں سے کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؛ تو یہ آپ کا اجتہاد تھا؛ اور آپ کے لیے اجتہاد جائز تھا۔اور یہ بات اس انسان کے اہل جنت ہونے میں مانع نہیں ہوسکتی۔ اور نہ ہی یہ بات آپ کے عدل و انصاف پر موجب قدح ہوسکتی ہے ۔اور نہ ہی آپ کے جنتی ہونے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔توپھر جب کوئی واقع پیش ہی نہیں آیا تو کیسے اعتراض کیا جاسکتا ہے ؟ بالفرض اگر اس واقعہ کو سچا بھی تسلیم کرلیں تو یہ امر موجب حیرت ہے کہ روافض کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان چھ حضرات کوقتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ سبھی حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا واجب القتل تھے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا تو پھر رافضی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ مکاریاں کیوں کرتے ہیں ؟ کہتے ہیں کہ :حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو خلیفہ بنا کر ان کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ پھر ان کو تہ تیغ کرنے کا حکم بھی دیتے ہیں یہ ’’ جمع بین الضدین‘‘ نہیں تو اور کیا ہے ؟ ٭ اگر شیعہ کہیں کہ اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا تھا ۔ ٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: ’’ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیتے
Flag Counter