Maktaba Wahhabi

542 - 702
گا۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو مجھ پر کوئی عیب نہ لگانا ۔بیشک یہ میرا مال نہیں ہے۔ بیشک یہ وہ مال ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کونوازا ہے۔‘‘ سیرت و کردار اور عدل و احسان کے اعتبار سے حضرت معاویہ کا دامن ایسے فضائل و مناقب سے پر ہے۔ حسن سیرت اور عدل و احسان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابن عباس نے کہا: معاویہ نے ٹھیک کیا، وہ فقیہ ہیں ۔‘‘ [1] امام بغوی نے اپنی معجم میں اپنی سند سے نقل کیا ہے؛ اور ایک دوسری سند سے ابن بطہ نے روایت کیا ہے؛ یہ دونوں سعید بن عبدالعزیز سے؛ وہ اسماعیل بن عبداللہ بن مہاجر سے؛وہ قیس بن حارث سے وہ الصنابحی سے روایت کرتے ہیں کہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو۔‘‘ [2] یہ ہے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تدین و تفقہ کے بارے میں ! فقاہت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گواہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ، اور حسن صلوٰۃ کی گواہی دینے والے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ، دونوں جس پایہ کے صحابی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اس کے موید آثار اور بھی بہت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سابقین اوّلین صحابہ میں شمار نہیں ہوتے۔ بخلاف ازیں کہا گیا ہے کہ آپ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے ۔ حضرت معاویہ خود اس بات کے معترف تھے کہ وہ فضلاء صحابہ میں شامل نہیں ہیں ۔ اس کے باوصف آپ کثیر اوصاف کے حامل تھے۔ آپ کی سلطنت کی حدود خراُسان سے لے کر مغرب میں بلاد افریقہ تک اور قبرص سے لے کر یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس بات پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ معاویہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم تو درکنار عظمت و فضیلت میں حضرت عثمان و علی کے قریب بھی نہ تھے۔ پھر کسی اور بادشاہ کو ان کے مشابہ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ نیز مسلم سلاطین میں سے کوئی مسلم سلطان سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حریف کیسے ہو سکے گا؟ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ امت میں جو فتنے پیدا ہوئے اور جو گناہ سرزد ہوئے ان سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کہیں بہت دور کااور بہت کم ہی واسطہ ہوگا۔لیکن اس کے ساتھ ہی گناہوں کا کفارہ بننے والے امور و اعمال موجود ہیں ۔ جب کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افاضل لوگ ہیں ۔ اور ان کی اکثریت فتنوں میں شریک نہیں ہوئی۔ اکابر صحابہ نے فتنہ پردازی میں حصہ نہیں لیا تھا۔عبداللہ بن احمد کہتے ہیں : میرے والد نے بتایا کہ ہمیں اسماعیل یعنی
Flag Counter