Maktaba Wahhabi

614 - 702
اس لیے کہ آپ یہ کہتے تھے: مجھے اس سے پہلے دو خلفاء حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہمانے والی مقرر کیا ہے۔اور میں اس وقت تک اپنی ولایت پر باقی رہوں گا یہاں تک کہ لوگوں کا ایک خلیفہ پر اتفاق ہوجائے۔ ٭ حکمین کا اتفاق ہوگیا تھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر المؤمنین کے منصب سے معزول کیا جائے۔ اور معاویہ کو شام کی ولایت سے معزول کیا جائے۔ان میں سے ایک کا مقصد یہ تھا کہ اس کا ساتھی اپنے منصب پر باقی رہے ‘ مگر اس نے اس چیز کااظہار نہیں کیا۔ جب اس نے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی تو لوگ بغیر کسی اتفاق کے منتشر ہوگئے ‘ اور اس کے بعد کوئی جنگ و قتال نہیں ہوا۔ ٭ اگر یہ بات مان لی جائے کہ: اس واقعہ کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے خود امیر المؤمنین ہونے کا دعوی کیا تھا؛ تو پھر بھی شیعہ کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی امامت تسلیم کروانے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی گئی۔ ٭ اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں اس وجہ سے نہیں لڑی گئیں کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا امام تھا اور آپ کے اطاعت گزار۔بلا ریب جو لوگ امامت کے مستحق تھے‘ جیسے حضرت ابوبکر، عمرو حضرت عثمان رضی اللہ عنہم ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس بات میں اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ڈرو خوف رکھتے تھے کہ وہ ان کے خلاف اپنے قول یا فعل سے خروج کریں ۔بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت باقی تمام لوگوں سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی۔ جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ مختلف ہے۔اس عہد کے لوگ اتنے عادل اور صاحب علم تھے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہے کہ: آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کریں ۔ بلکہ کوئی آپ کو حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہماکی بیعت کرنے کا کہنے والا بھی نہیں تھا۔ حالانکہ یہ دونوں حضرات اہل شوری میں سے تھے۔ ٭ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا انتقال خلافت عثمانی میں ہوگیا تھا؛ اب حضرت عثمان کی وفات کے بعد چار حضرات رہ گئے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس سارے فتنہ سے الگ تھلگ رہے۔ آپ نے مسلمانوں کے مابین قتال میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ اور ان سب کے بعد تک زندہ رہے۔ عشرہ مبشرہ میں سے سب سے آخر میں وفات آپ کی ہوئی۔ آپ فتنہ سے الگ ہوکر وادی عقیق میں عزلت نشین ہوگئے تھے۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کا جنازہ کندھوں پر اٹھاکر لایا گیا اور بقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ ٭ صحیح مسلم میں عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے اونٹوں میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر آیا۔ جب حضرت سعد نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ جب وہ سواری سے اترا اور اپنے باپ سے مخاطب ہوا کہ آپ یہاں پر اپنے اونٹوں اور بکریوں میں بیٹھے ہوئے اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے وہ ملک کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے ہیں تو آپ نے اس کے سینے میں مارا اور فرمایا:خاموش ہوجا میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:((إِن اللّٰہ یحِب العبد التقِی الغنِی
Flag Counter