Maktaba Wahhabi

615 - 702
الخفِی۔)) ’’بیشک اللہ تعالیٰ متقی غنی اور مخفی شخص سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ ٭ آپ کا یہ بیٹا عمرملک و ریاست کا دلدادہ تھا۔ بھلے وہ کسی مذموم طریقہ سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسے ولایت دی گئی تو اس سے کہا گیا:ہم اس وقت تک ولایت تفویض نہیں کریں گے جب تک تو حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں سے جنگ نہ لڑو۔ پس اس گروہ کا امیر یہی بد بخت انسان تھا۔ ٭ جہاں تک حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو آپ مستجاب الدعوات تھے۔ اپنے زمانے میں بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ آپ نے ہی عراق فتح کیا اور کسری کے لشکر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اور آپ یہ جانتے تھے کہ لازمی طور پر مسلمانوں کے مابین فتنے پیش آئیں گے۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( سألت ربِی أن لا یہلِک أمتِي بِسنۃ عام فأعطانِیہا، وسألتہ أن لا یسلِط علیہِم عدواً مِن غیرِہِم فیستبِیح بیضتہم فأعطانِیہا،وسألتہ أن لا یجعل بأسہم بینہم فمنعنِیہا۔)) ’’میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میری امت کو قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کرے پس یہ مجھے عطا کردیا گیا۔ اور میں نے اللہ عزوجل سے مانگا کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کر پس اللہ عزوجل نے یہ چیز بھی مجھے عطا کر دی اور میں نے اللہ عزوجل سے سوال کیا کہ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی نہ ہو تو مجھے اس سوال سے منع کردیا گا۔‘‘[1] ٭ مقصود یہ ہے کہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قواعد اسلام میں سے کسی قاعدہ پر اختلاف کی وجہ سے ہر گز کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی قواعد اسلام کے متعلق ان کے مابین سرے سے کوئی اختلاف تھا۔نہ ہی اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق‘ نہ ہی تقدیر کے متعلق؛نہ ہی اسماء و احکام کے متعلق؛ نہ ہی امامت کے مسئلہ میں ۔ان مسائل میں تو کسی کا زبانی اختلاف بھی نہیں ہوا چہ جائے کہ ایک دوسرے پر تلواریں سونت لی جائیں ۔بلکہ یہ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی ان
Flag Counter