Maktaba Wahhabi

616 - 702
صفات کو ثابت مانتے تھے جن کے متعلق اس نے خود خبردی ہے ‘ اور مخلوق کے ساتھ ان صفات کی مماثلت کی نفی کرتے تھے۔تقدیر کو ویسے ہی مانتے تھے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔سبھی لوگ امر و نہی اور وعد و وعید کو ثابت مانتے تھے؛اور اللہ تعالیٰ کے افعال اور تخلیق میں حکمت کو مانتے تھے؛ اور تقدیر کو ثابت ماننے کے ساتھ ساتھ فعل کے بجالانے میں انسان کی قدرت اور استطاعت کو بھی ثابت مانتے تھے۔ پھر آپ کے زمانے میں کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو معصیت پر تقدیر سے حجت پیش کرتا؛ اور تقدیر کو کافر یا گنہگار کے حق میں حجت مانتا۔ اور نہ ہی کوئی ایسا تھا جو اللہ تعالیٰ کے کامل علم اور اس کی شامل مشیت اور مخلوق پراس کی عموم قدرت کا نکار کرتا ہو۔ اور اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور مہربانی کا منکر ہو۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اہل ایمان پر ایمان اور اطاعت گزاری انعام کی ہے۔ اوراہل کفر و معصیت کو چھوڑ کر انہیں اس نعمت کے لیے بطور خاص منتخب کیا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو ہر پل میں انسان کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محتاج ہونے کا منکر ہو۔ اور یہ کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں قوت و طاقت اور توفیق صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ اور کوئی یہ بھی نہیں کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کفر و شرک کا حکم دینا اور صرف اکیلے اپنی عبادت سے منع کرنا جائز ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ فرعون اور ابلیس کو جنت میں داخل کردے اور انبیاء کرام علیہم السلام کو جہنم کی آگ میں ڈال دے ؛ اس طرح کے خیالات کے لوگ نہیں تھے۔ ٭ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو کہ تقدیر کے انکار کا عقیدہ رکھتا ہو اور نہ ہی ان میں کوئی قدریہ جبریہ یا جہمیہ تھا۔ اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا تھا جو کہ اہل قبلہ کے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کا عقیدہ رکھتا ہ۔ اورنہ ہی کوئی کبیرہ گناہ کے مرتکب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا منکر تھا۔ اور نہ ہی کوئی یہ کہتا تھا کہ فاسق اور فاجر لوگوں کا ایمان بھی انبیا کرام کے ایمان کی طرح تھا۔ بلکہ ان سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس انسان کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جہنم کی آگ سے نکالا جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ اوریہ کہ لوگ ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اور یہ کہ ایمان کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔ ٭ جس کسی نے حضرت ابن عباس کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ آپ قاتل کے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کا عقیدہ رکھتے تھے یقیناً اس نے آپ پر جھوٹ بولا ہے۔ جیسا کہ ابن حزم وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ قاتل کی توبہ کے قائل تھے اسے ہمیشہ کے لیے جہنمی نہیں کہتے تھے۔ اور اس کی توبہ قبول ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یہی دو روایتیں حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی منقول ہیں ۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے ۔ تو پھر ان دونوں کو ایک دوسرے سے کیا نسبت ہے۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو کہتا ہو کہ حضرت ابوبکرو عمر و عثمان رضی اللہ عنہم ائمہ نہیں تھے اور ان کی خلافت درست نہیں تھی۔ اور کوئی یہ بھی نہیں کہتا تھا کہ ان کی خلافت نص سے ثابت تھی۔ اور نہ ہی کوئی اس بات کا
Flag Counter