Maktaba Wahhabi

644 - 702
اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔آپ کا اس آیت قرآنی میں بہت بڑا حصہ ہے : ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًاoاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِِدَلَہٗ نَصِیْرًاo﴾ [النِساء: 51، 52 ] ’’کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔یہی لو گ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے پھر تو کوئی اس کی مدد کرنے والا ہر گز نہ پائے گا۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیلمہ کذاب کفر کے بڑے ائمہ میں سے ایک تھا۔یہ حال اس کے ہم مثل اور ہمنوا عبیدی ملحدین کااور ان لوگوں کا بھی ہے جو الوہیت اور نبوت کے دعویدار ہیں ۔یا پھر ان کا یہ دعو ہے کہ فلسف نب سے بڑا ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اس طر ح کے دیگر کفریہ عقائد ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بدعت جہمیہ اور روافض کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ اور وہ یہ بات کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ حق پر ہیں ۔ اور ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچ ثابت ہورہا ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِِدَلَہٗ نَصِیْرًا﴾ [النِساء: 52 ] ’’یہی لو گ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے پھر تو کوئی اس کی مدد کرنے والا ہر گز نہ پائے گا۔‘‘ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جادو اور شرک کی اور شیطان احوال کی اور ان امور کی تعظیم کرتے ہیں جو بت پرستی اور طاغوت پر ایمان کی قبیل میں سے ہیں ۔جبت کا معنی ہے: جادو ؛ اور طاغوت : شیطان اور بتوں کو کہتے ہیں ۔ دوسری وجہ:....اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ امور جمہور اور روافض کے مابین تقابل کے لیے بیان کئے جارہے ہیں ؛ تو ان میں سے کون سا گروہ دوسرے دوسرے کی نسبت زیادہ خیر وبھلائی پر ہے؛ اور کون شر و فساد پر ۔ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ جمہور میں بھی کافی بری باتیں پائی جاتی ہیں ۔ مگر جب ان کا مقابلہ کیا جاتے تو اس وقت فریقین کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ضرور ہوتا ہے۔جیسا کہ جب ہم مسلمانوں اور یہود و نصار کے مابین تقابل کرتے ہیں تو ہم مسلمانوں میں موجود شر اور برائی کو اتنا زیادہ نہیں پاتے۔ لیکن پھر بھی عدل و انصاف کرنا واجب ہوتا ہے ؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔اور اس عدل و انصاف کے واجب اور حسن ہونے پر عقول اور شریعت کا اتفاق ہے۔ ٭ پس ہم کہتے ہیں : کوئی بھی برائی اور شر و فساد ایسا نہیں ہے جو جمہور میں پایا جاتا ہو مگر اس کی جنس کا وہ شر اس سے زیادہ اور کثرت کے ساتھ روافض میں نہ پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں میں کوئی شر اور برائی ایسی نہیں ہے جو یہود
Flag Counter