Maktaba Wahhabi

653 - 702
زیادہ دنگا و فساد کرنے والے ہیں ۔ ان میں زبانوں اور رنگ و نسل کے باوجود آپس میں ایک دوسرے پر بھی بہت بڑا ظلم و تعدی اور اختلاف پائے جاتے ہیں جو کہ کفار سے دوستی رکھنے والوں کے مابین بھی نہیں ؛ چہ جائے کہ وہ مسلمانوں سے محبت اور دوستی رکھنے والوں میں پائے جائیں ۔تو پھر ان لوگوں کو اس امام کی وجہ سے کونسا لطف اورمہربانی حاصل ہوئی؟ جن بستیوں اور شہروں کے رہنے والے امام منتظر ماننے والے اور اس کا عقیدہ رکھنے والے ہیں ‘ آپ ان کا مقابلہ ان شہروں اور بستیوں سے کیجیے جو اس کا عقیدہ نہیں رکھتے ؛ تو آپ دیکھیں کہ مؤخر الذکر لوگ معاش و معاد کے لحاظ سے ہر طرح سے اچھی حالت میں ہیں ۔ یہاں تک کہ احوال عالم پر نظر رکھنے والا جانتا ہے کہ کافروں کے شہر جہاں منتظمین اور رؤوساء موجود ہیں ‘ جو ان کی دنیاوی مصلحتوں کو پورا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں ‘ وہ ان لوگوں سے اچھی حالت میں ہیں جو اپنے آپ کو اس امام کی متابعت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ مگر اس امام کی وجہ سے ان کے لیے نہ کوئی دنیاوی مصلحت پوری ہوتی ہے اور نہ ہی دینی ۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ وہ امام کے وجود کے اعتراف کے ساتھ گناہ کرتے ہوئے ڈرتے بھی ہیں کہ اگر امام ظاہر ہوگیا تو انہیں گناہوں پر سزا دے گا؛ تو پھر بھی یہ بات سبھی جانتے ہیں سزا میں مشہور حکمرانوں کا لوگوں پر خوف ان [امامیہ ] لوگوں کے امام منتظر کے خوف سے بڑھ کر ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں : ان میں سے کچھ گناہ ظاہری ہوتے ہیں ۔ جیسے لوگوں پر ظلم کرنا ‘ ظاہری فحاشی [وغیرہ ]۔ان گناہوں میں لوگ ڈرتے ہیں کہ حاکم انہیں سزا دے گا۔ یہ خوف امامیہ کے امام منتظر کی سزا کے خوف سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس لطف ومہربانی کووہ واجب قرار دیتے ہیں ‘ وہ نہ ہی اس منتظر کے عارفین کے لیے حاصل ہوئی اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے ۔ ٭ شیعہ کا یہ کہنا : ’’ یہ لطف امام کے عارفین کے لیے [ایسے ہی ] حاصل ہوتا ہے جیسا کہ حالت ظہور میں حاصل ہو‘‘؟ ٭ یہ ایک کھلی ہوئی معاندانہ اور سرکشی کی بات ہے ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی شک نہیں جب امام مہدی کا ظہور ہوگا ‘ وہ شرعی حدود قائم کرے گا ‘ اور وعظ و نصیحت کاکام کرے گااور ایسے امور سر انجام دے گا جن امور کا لطف ہونا واجب ہوگا ‘ اور یہ امور عدم ظہور کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتے۔ لطف کے باب میں ان کا امام کی معرفت کو اللہ تعالیٰ کی معرفت سے تشبیہ دینا ‘اور یہ کہنا کہ : اس سے عارفین کو لطف و مہربانی حاصل ہوتے ہیں دوسروں کو نہیں ؛ یہ ایک فاسد قیاس ہے۔ اس لیے کہ یہ معرفت کہ : اللہ تعالیٰ زندہ موجود اور قادر ہے؛ بھلائی کا حکم دیتا ہے ‘ اور اس[کے بجالانے] پر ثواب سے نوازتا ہے‘ اوربرائی سے منع کرتاہے اور اس [کے ارتکاب ] پر سزا دیتا ہے ‘[یہ معرفت] اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے امید کے بڑے اسباب میں سے ہے۔یہ معرفت ثواب ِ اعمال کے حصول میں رغبت پیدا کرے گی؛ اس بنا پر انسان مامور افعال کو بجالائے گا اور ممنوعہ کاموں کواس کے عذاب کے خوف سے ترک کردے گا۔ کیونکہ انسان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ؛ اور اس کی سنت نیکوکاروں کو ثواب دینا اور بدکرداروں کو سزادینا ہے۔
Flag Counter