Maktaba Wahhabi

654 - 702
رہا ایسا شخص جس کے بارے میں لوگ جانتے ہوں کہ ساڑھے چار[اوراب بارہ ] سو سال سے مفقود ہے؛ [اس کا کوئی اتا پتہ ہی نہیں ]اور نہ ہی اس نے کسی کو [نیکی پر] ثواب دیا؛ اورنہ ہی کسی کو [بدی پر] سزا دی۔ بلکہ اگر وہ ظاہر ہوجائے تو اسے اپنی جان کا خوف دامن گیر ہو؛بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے؛ تو پھر ایسے امام کی معرفت مامور کو بجالانے اور ممنوع کے ترک کردینے کے لیے داعی [اور سبب] کیسے ہوسکتی ہے؟بلکہ جب کسی کو امام کے عجز و خوف کا پتہ چلے گا تو وہ زیادہ بے خوف ہو کر گندے افعال کا ارتکاب کرے گا۔خصوصاً جب ایک لمبا زمانہ گزر جائے ‘اور وقت پہ وقت گزرتا جائے اس دوران نہ ہی کسی کو[بد عملی کی] سزا ملی ہو اور نہ ہی کسی کو [نیک عمل پر] انعام ملا ہو۔ بلکہ اگر مان لیا جائے [جیسے بعض شیعہ دعوی کرتے ہیں ]کہ : امام ہر سو سال میں ایک بار ظاہر ہوتا ہے ؛ اور سزا دیتا ہے ۔ تو پھر بھی اس امام سے وہ لطف و مہربانی حاصل نہیں ہوسکتی جو کسی ادنی سے مسلمان حکمران سے حاصل ہوسکتی ہیں ۔ بلکہ اگر یہ بھی کہہ لیا جائے کہ [یہ امام ] ہر دس سال بعد ظاہر ہوتا ہے ؛ یا ہر سال بعد ایک بار ظاہر ہوتا ہے ‘ تب بھی اس امام سے کوئی ایسی منفعت حاصل نہیں ہوسکتی جو اس حکمران سے حاصل ہوسکتی ہے جو ہر وقت لوگوں کے درمیان ظاہر اور موجود ہو۔بلکہ یہ حکمران ۔ بھلے بعض گناہوں کے مرتکب بھی ہوں ‘اور بعض امور میں ظالم بھی ہوں پھر بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اسباب مہیا کیے ہیں ۔یہ جو لوگوں کو سزائیں دیتے ہیں ‘اور نیکی کے کاموں میں رغبت دلاتے ہیں ‘ [اس کا فائدہ ] اس سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک عرصہ کے بعد ظاہر ہو؛ پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جو بالکل ہی مفقود ہو۔ جمہور عقلاء جانتے ہیں اس امام کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ۔اس امام کے وجود کا اقرار کرنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ [اگر وہ امام بالفرض موجود بھی ہے تو] وہ انتہائی عاجز اور خوف زدہ ہے۔ اس نے کبھی بھی کوئی فعل سر انجام نہیں دیا جیسے لوگوں میں سے کوئی بھی کوئی کام کرسکتا ہو۔ چہ جائے کہ اس کا مقابلہ کسی ایسے حکمران سے کیا جائے ۔[جو احکام جاری کرتا ہو ‘ اور قانون نافذ کرتا ہو]۔ اس امام غائب کی کون سی ہیبت ہے ؟ اور کیسی اطاعت گزاری ہے ؟ کون سا تصرف ہے اور کیسی دسترس حاصل ہے ؟ تاکہ لوگوں کے لیے ایک باہیبت ‘ مطاع ؛ متصرف اور دسترس رکھنے والا امام [تصور کیا جائے ] جس کے دور میں لوگ اطاعت واصلاح کے قریب تر ہوتے ہیں ۔ جس انسان کو ان باتوں کا علم ہے ؛وہ جانتا ہے کہ شیعہ انتہائی سرکشی ‘ جہالت ‘ عداوت اور حماقت کا شکار ہیں ۔ اس لیے کہ یہ لوگ امام کی غیبت وعاجزی کی حالت میں اس سے وہ لطف و مہربانی جوڑتے ہیں جو اس کے ظہور کی حالت میں ہونی چاہیے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ : اس امام کے خوف ‘ عاجزی ‘ اور فقدان کے باوجود اس کی معرفت لطف و مہربانی ہے؛ جیسا کہ اگر وہ ظاہر و قادر ہوتا ‘ اور اسے امن حاصل ہوتا [تووہ لطف و مہربانی حاصل ہوتی]۔ اورپھر یہ بھی کہتے ہیں کہ : صرف اس معرفت کا ہونا بھی ایسے ہی لطف و مہربانی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی معرفت لطف و مہربانی ہے ۔
Flag Counter