Maktaba Wahhabi

75 - 702
گروہ ایسا نہیں ہوگا جسے جہنم میں ڈالا جائے مگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو۔ جیسے فرمان الٰہی ہے: ﴿ لاََمْلاََنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ (ص۸۵) ’’میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اورتیری پیروی کرنے والوں سے بھر دوں گا۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قسم اٹھا رہے ہیں : کہ جہنم کو ابلیس اور اس کے اتباع گزاروں اور پیروکاروں سے بھرا جائے گا۔ اس کے پیروکار وہ ہیں جو اس کی بات مان کر چلتے ہیں ۔ پس جو کوئی گناہ کا نہیں کرتا؛ وہ اس کی اطاع سے گریز کرتا ہے۔ تو پھر اس کا شمار بھی ان میں نہیں ہوگا جن سے جہنم بھری جائے گا۔ جب جہنم اس کے پیروکاروں سے بھری ہوگی تو پھر کسی دوسرے کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ صحیحین میں حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لوگ مسلسل جہنم میں ڈالے جا رہے ہوں گے؛ اور جہنم کہتی جائے گی کہ:’’ اور کچھ باقی ہے؟ یہاں تک کہ رب العالمین اس میں اپنا پاؤں رکھ دیں گے۔ تو اس کے حصے آپس میں مل کر سمٹ جائیں ، پھر وہ کہے گی: کافی ہوگیا؛ کافی ہوگیا۔‘‘ جبکہ جنت میں جگہ باقی بچ جائے گی؛حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوسری مخلوق پیدا کرے گا اور ان کو جنت کی بچی ہوئی جگہ میں ٹھہرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری:ج۲: ح: ۲۰۵۸] صحاح میں کئی اسناد سے یہ حدیث یونہی روایت کی گئی ہے؛بخاری کی بعض اسناد میں غلطی واقع ہوئی ہے۔ وہاں پر ہے: ’’جبکہ جہنم میں جگہ باقی بچ جائے گی ۔‘‘جبکہ بخاری کی تمام اسناد میں ہر جگہ پر صحیح الفاظ میں روایت کیا گیا ہے۔ اور آپ نے ایسے اس لیے کیا ہے تاکہ راوی کی غلطی کو واضح کرسکیں ؛ جیسا کہ ایسے مواقع پر آپ کی عادت ہے ۔جب کسی راوی سے الفاظ میں غلطی ہو جائے تو آپ ان الفاظ کو ذکر کرتے ہیں جو سارے راویوں کے ہاں منقول ہوتے ہیں ؛ اس سے صحیح بات کا پتہ چل جاتا ہے۔ میرے علم کے مطابق بخاری میں کہیں پر کوئی ایسی غلطی واقع نہیں ہوئی جس کی اصلاح بھی انہوں نے نہ کردی ہو۔ بخلاف صحیح مسلم کے؛ ان کی صحیح میں کئی احادیث کے روایت کرنے میں غلطی واقع ہوئی ہے۔ جن کی وجہ سے کئی حفاظ حدیث نے صحیح مسلم میں ان احادیث پر بہت سخت نکیر کی ہے۔ جبکہ صحیح بخاری کی بعض روایات کی تخریج پر کچھ اہل علم نے اعتراض و نکیر کی ہے؛ لیکن حق یہ ہے کہ اس میں امام بخاری رحمہ اللہ کی بات ہی درست ہے۔ اور ان دونوں حضرات کی جن احادیث پر اعتراض کیا گیا ہے؛ وہ بہت ہی کم ہیں ۔ جب کہ ان کے باقی تمام متون کی صحت و درستگی؛ ان کی تصدیق اور قبول پرعلماء و محدثین کا اتفاق ہے؛اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ یٰا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا شَہِدْنَا عَلٰٓی اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ شَہِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَo ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُہَا غٰفِلُوْنَ ﴾ [الانعام ۱۳۰۔۱۳۱]
Flag Counter