Maktaba Wahhabi

82 - 702
مجرم تھے ۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب وہ لوگ کفار تھے تو ہم نے انہیں عذاب دیا۔تووہ کفار جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا ہے؛ وہ ان سے بہتر نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ بھی انہی کی طرح ہیں ۔ ان ہی کی مانند اس سزا کے مستحق ہیں جس سزا کے مستحق وہ پہلے لوگ بنے تھے۔ اگریہ لوگ ان پہلے کافروں سے بہتر ہوتے تو اس عذاب کس مستحق نہ ٹھہرتے ؛جو سزا پہلے لوگوں کو ملی ہے۔ پس اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ دو متماثلین کو برابر رکھتے ہیں ؛ اور خیر و بھلائی کے پیکر کو افضلیت دیتے ہیں ؛ اور اس کے اور اس سے کم تر کے مابین برابری نہیں کرتے۔ اورایسے ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ہُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الحشر مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوا اَنَّہُمْ مَانِعَتُہُمْ حُصُونُہُمْ مِّنْ اللّٰہِ فَاَتَاہُمْ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِo ....ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَاقُّوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَمَنْ یُّشَاقَّ اللّٰہَ فَاِِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o﴾ [الحشر ۲۔۴] ’’وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا پہلے اکٹھ ہی میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تم نے گمان نہ کیاتھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ یقیناً ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچانے والے ہیں ۔ تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں کے ساتھ برباد کر رہے تھے، پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو! یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسو ل کی مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو بلاشبہ اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ یہاں پر اعتبار اس بات کا ہے کہ انہیں ان کے امثال سے تعبیر کیا جائے؛ اور انہیں بتایا جائے کہ جو کوئی ایسے کرے گا جیسے انہوں نے کیا تھا؛ تووہ بھی ویسے ہی عذاب کا مستحق ٹھہرے گا؛ جیسے وہ لوگ عذاب کے مستحق ٹھہرے تھے۔ اوراگر اللہ تعالیٰ دو متماثلین کے مابین برابری ہی کرتے؛ اور کبھی برابری نہ کرتے ہوتے؛ تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہ رہتا کہ یہ معلوم ہو جاتا کہ یہ متعین ہی وہ ہے جس کے مابین اور اس کے امثال کے مابین مساوات ہوگی۔ تو پھر اس صورت میں حکم لگانا صرف اس صورت میں ممکن ہوتا جب اس متعین شخص کا حکم جان لیا جائے۔ توپھر اعتبار و قیاس کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اکثر اہل کلام اس آیت سے قیاس پراستدلال کرتے ہیں ۔اور بیشک یہ آیت قیاس پر اس لیے دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت دو متماثلین کو برابر شامل ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں بھی ایسا کرتے ہیں ۔ اگر یہ مطلق اعتبار؍قیاس کی وجہ سے اس آیت سے کسی شرعی حکم پر استدلال کرسکتے ہیں ؛ تو پھر وہ اس آیت سے ایک کائناتی اور تخلیقی حکم پر ثواب اور عقاب کے ضمن میں اس آیت سے استدلال کیوں نہیں کرتے۔ جبکہ آیت میں حقیقی
Flag Counter