Maktaba Wahhabi

100 - 358
تارک نماز کا حکم سوال 1: اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو بے نماز مرا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے آباؤ اجداد مسلمان تھے؟ اس کے غسل، کفن دفن، نماز جنازہ اور اس کے لیے دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: شرعا مکلف اور شرعی احکام سے آگاہ ہونے کے باوجود ایک شخص تارک نماز ہو کر مرا ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔ اسے غسل دیا جائے نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔ اس کے مسلمان عزیز و اقارب اس کے وارث نہیں بن سکتے، بلکہ علماء کے ایک صحیح قول کی رو سے اس کا مال مسلمانوں کا مال نہیں۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں موجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: (بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلَاةِ)(صحیح مسلم) ’’ ایک مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک صلوٰۃ حد فاصل ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان جو حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اہل السنن رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یوں ہے: (الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ)(سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجۃ رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرک الحاکم 1؍7، سنن دارمی، السنن الکبری للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبۃ 11؍34، و صحیح ابن حبان رقم 1454) ’’ ہمارے اور غیر مسلموں کے درمیان نماز کا ہی تو عہد ہے، جس نے نماز کو ترک کیا اس نے یقینا کفر کیا۔‘‘ جلیل القدر تابعی عبداللہ بن شقیق العقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (كان أصحاب النبي صلى اللّٰه عليه وسلم لا يرون شيئا تَرْكُهُ كُفْرٌ إِلَّا الصَّلَاةَ) ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کے علاوہ کسی چیز کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔‘‘
Flag Counter