Maktaba Wahhabi

25 - 358
(قَالَ عَلَيَّ مَا لَم أَقُل فَليَتَبَوأ بَيتاً فِي جَهَنَم ومَن أَفتَى بِغَيَّرِ عِلمِ كَانَ إِثمُه عَلَى مَن أَفتَاهُ) ”جس نے میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کی جو میں نے کہی نہ ہو تو وہ اپنا گھر جہنم میں بنا لے اور جس شخص کو علم کے بغیر کوئی فتوی دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کو ہوگا۔“[1] کتاب وسنت کے ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ فتویٰ صرف اس شخص کو دینا چاہیے جس میں مکمل اہلیت ہو۔ مکمل اہلیت سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال مختلف ہیں۔[2]فقہ حنفی کے مطابق جو واقعہ ابھی تک پیش ہی نہ آیا ہو اس کے بارے میں فتویٰ دینا واجب نہیں ہے۔فتویٰ میں تساہل کا ثبوت دینا یا اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا حرام ہے۔فتویٰ صرف اسی شخص کو دینا چاہیے جو علماء کے اقوال کو جانتا ہو اور اسے معلوم ہو کہ علماء کے ان اقوال کا مصدرو ماخذ کیا ہے، اگر کسی مسئلہ میں اقوال مختلف ہوں تو اسے اس قول کی دلیل بھی معلوم ہونی چاہیے جسے اس نے اختیار کیا ہو الغرض ہر اس بالغ عاقل مسلمان کے لیے فتویٰ دینا جائز ہے جو روایات کا حافظ،درایات سے واقف، طاعات کا محافظ اور شہوات و شبہات سے مجتنب ہو، خواہ مرد ہو یا عورت اور خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان[3] اس مسئلہ میں فقہاء مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے ارشادات بھی قریباً اسی کے ہم معنی ہیں۔[4] حافظ ابن قیم نے آداب فتویٰ و مفتی و مستفتی پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔[5] مفتی کا اپنےفتویٰ سے رجوع: حافظ ابن قیم رحمۃا للہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر مفتی نے کوئی فتویٰ دیا ہو اور پھر وہ اپنے فتویٰ سے رجوع کرے اور مستفتی کو بھی اس کے رجوع کے بارے میں علم ہوجائے اور ابھی تک اس نے اس کے فتویٰ پر
Flag Counter