Maktaba Wahhabi

165 - 358
’’ قیامت کے دن دوسرے انبیاء پر فخر کروں گا۔‘‘ نیز اس لیے بھی کہ امت مسلمہ کو افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ سر انجام دے سکیں، اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر فی سبیل اللہ جہاد کریں، اور کفار کی مکاریوں سے مسلمانوں کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دے سکیں، لہذا ضرورت کے علاوہ ایسی گولیوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اگر کوئی ضرورت ہو مثلا یہ کہ عورت کے رحم میں کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی بناء پر حمل نقصان دہ ہو سکتا ہے، یا اسی طرح کی کوئی اور بیماری ہے تو ایسے حالات میں بقدر ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح پہلے سے موجود بچوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اگر حمل نقصان دہ ہو تو ایک معین وقت مثلا سال، دو سال(دودھ پلانے کی مدت)تک ایسی گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ عورت کے لیے مشکلات میں کمی ہو سکے اور وہ مناسب انداز میں بچوں کی تربیت کر سکیں۔ اگر مانع حمل گولیوں کا استعمال صرف اس مقصد کے تحت ہو کہ ملازمت کے لیے فراغت میسر آ سکے یا کم بچے خوشحالی کا باعث ہوں گے یا ان جیسا کوئی اور معاملہ ہو جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، تو یہ قطعا ناجائز ہے۔ …شیخ ابن اب باز… شادی کے لیے مناسب عمر سوال 3: عورتوں اور مردوں کے لیے شادی کی موزوں عمر کتنی ہے؟ کیونکہ بعض دوشیزائیں اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے شادی نہیں کرتیں، اسی طرح بعض نوجوان اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں سے شادی نہیں کرتے، جواب سے آگاہ فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب: نوجوان لڑکیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اس بناء پر مرد کو مسترد نہ کریں کہ وہ ان سے دس بیس سال یا تیس سال بڑا ہے، یہ کوئی معقول عذر نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ترپن(53)برس تھی جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی نو برس کی عمر کو پہنچ پائی تھیں۔ بڑی عمر نقصان دہ نہیں ہے۔ مرد کا عورت سے بڑا ہونا یا عورت کا مرد سے بڑا ہونا چنداں قابل حرج نہیں ہے۔ نزول وحی سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی تو اس وقت ان کی عمر چالیس برس جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس تھی یعنی خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ برس بڑی تھیں۔ وہ لوگ جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ پر گفتگو کر
Flag Counter