Maktaba Wahhabi

229 - 358
کرنا مقصود ہوتا ہے، اسی لیے شریعت نے باپ اور بیٹے سے کہیں زیادہ خاوند کا سوگ منانے کو مشروع قرار دیا ہے۔ حاملہ عورت کی عدت فقط وضع حمل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام ہے: (وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ)(الطلاق 65؍4) ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے عمومی حکم کی تخصیص کر رہی ہے۔ (وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ)(البقرۃ 2؍234) ’’ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔‘‘ وضع حمل سے عدت ختم ہونے کی حکمت یہ ہے کہ چونکہ حمل پہلے خاوند کا حق ہے، اگر حاملہ عورت نے خاوند کی وفات یا کسی اور وجہ سے جدائی کے بعد فورا نکاح کر لیا تو دوسرے خاوند نے اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلایا اور یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: (لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مُسْلِمٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يَسْقي ماءَهُ زَرْعَ غيرهِ)(سنن ابی داؤد، کتاب النکاح حدیث 2158 و احمد بن حنبل 4؍108) ’’ کسی ایسے مسلمان کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلائے۔‘‘ ایک مسلمان پر شرعی احکام کی تعمیل کرنا ضروری ہے، اسے ان احکام کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جملہ مشروعات میں حکیم ہے، جسے اللہ تعالیٰ حکمت کی معرفت عطا فرما دے تو یہ نور علی نور اور خیر الی خیر ہے۔ وباللّٰه التوفيق ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔
Flag Counter