لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ افتاء کی شرائط کو پورا کرتا ہو اور فتوی دینے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تاکہ وہ اس حدیث کا مصداق نہ ہو جسے علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ۔وفي رواية۔قَوْمُ رُءُوسُ جُهَّالُ يُفْتُونَ النَّاسَ فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ)
”آخر زمانے میں کچھ ایسے لوگ۔۔۔اور ایک روایت میں ہے کہ۔۔۔کچھ ایسے جال لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں کو فتویٰ دیں گے، مگر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ مسلمانوں کے امام و حاکم کو چاہیے کہ وہ مفتی حضرات کے حالات کا جائزہ لے، ان میں سے جو فتویٰ دینے کی صلاحیت سے بہرور ہو تو برقرار رکھے اور جو اس صلاحیت سے محروم ہوتو اسے فتویٰ دینے سے منع کردے اور کہے کہ اگر وہ آئندہ باز آیا تو اسے سزا دی جائے گی۔اسی احتیاط کے پیش نظر خلفاء بنی امیہ کا یہ معمول تھا کہ وہ موسم حج میں مکہ مکرمہ میں مفتیوں کا تقرر کردیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ ان مفتیان کرام کے علاوہ کسی اور سے فتویٰ طلب نہ کیا جائے۔“[1]
علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی قول ذکر کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور علم کے ضائع ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں کسی کوبھی فتویٰ نہ دیتا۔ اسی طرح علامہ ابن نجیم نے شر“الروض“کے حوالہ سے یہ ذکر کیا ہے کہ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے کے مشہور اہل علم سے یہ پوچھے کہ فتویٰ دینے کی صلاحیت سے کون بہرہ ور ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو فتویٰ دینے سے منع کردے جو اس صلاحیت سے محروم ہوں اور باز نہ آنے کی صورت میں انہیں سزا بھی دے۔[2]علامہ خطیب بغدادی،حافظ ابن قیم اور دیگر اہل علم نے بھی ائمہ کرام فقہاء عظام کے ارشادات اس مسئلہ سے متعلق بیان فرمائے ہیں مگر اختصار کے پیش نظر سردست ہم انہی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
|