Maktaba Wahhabi

145 - 702
سے نیند میں سنی جائیں ؛ ان کا کوئی حکم نہیں ہے۔اگر کوئی انسان طلاق دے دے؛ یا پھر غلام آزاد کردے؛ یا صدقہ کردے؛ یا اس کے علاوہ نیند میں کوئی اور حرکت کردے ؛ تو اسے لغو سمجھا جائے گا۔ بخلاف سمجھدار بچے کے ؛اس لیے اس کے اقوال معتبر ہیں ۔خواہ وہ ولی کی اجازت سے ہوں ؛ یا اس کی اجازت کے بغیر۔ ان میں سے کچھ مقام نص سے ثابت ہیں او رکچھ اجماع سے ۔ ایسے ہی انسانی نفس میں وسوسوں کا معاملہ بھی ہے۔کبھی یہ وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ؛ اور کبھی انسان کے نفس کی کمائی ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ﴾ [ق ۱۶] ’’اوربلا شبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتاہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَاوٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا﴾ [ق ۱۶] ’’پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرم گاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا۔‘‘ وسوسہ ؛اس مخفی کلام کو کہتے ہیں جس کی آواز انتہائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور یقیناً اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے: ﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِِلٰہِ النَّاسِo مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo﴾ ’’تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے ۔‘‘ اس کے معانی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔‘‘یہاں پر الناس کا ذکر کیا گیا ؛ پھر اس کے بعد جنات اور انسانوں کا ذکر کیا گیا۔ پہلے والا الناس کا لفظ جنات اور انسان دونوں کو شامل ہے۔ ان سب کوناس ہی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ انہیں ایک دوسری جگہ پر رجال [مرد] بھی کہا گیاہے۔یہ امام فرَّآء کا قول ہے۔ اس کے معانی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : وہ جو لوگوں کے سینوں میں جنات اور مطلق طور پر انسانوں کے شر کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ امام زجاج نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے۔ اورمفسرین میں سے ابو الفرج ابن جوزی نے یہ معنی بیان کیا ہے ۔انکے علاوہ کسی اور نے یہ معنی بیان نہیں کیا۔ ان کا یہ قول ضعیف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے تیسرا قول مراد ہے ۔ یعنی
Flag Counter