Maktaba Wahhabi

512 - 702
خصوصیت نہیں ہے سوائے انبیاء کے ]۔ پس جو کوئی انبیاء کرام کے بعد کسی کو معصوم مانتا ہے کہ اس کے ہر قول پر ایمان لانا واجب ہے ‘ تو یقیناً وہ اسے نبوت کے معانی دیتا ہے اگر چہ وہ الفاظ میں اسے نبی نہ بھی کہے ۔ ایسے آدمی سے کہا جائے گا کہ : اس معصوم اور بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام جو کہ شریعت موسوی [ تورات ] کی اتباع کے لیے مامور تھے ؛ ان کے مابین کون سا فرق باقی رہ گیا؟ بہت سارے گمراہ صوفی بھی اپنے مشائخ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔لیکن وہ کہتے ہیں : شیخ گناہ سے محفوظ ہے ۔ اور یہ صوفیا اپنے شیخ کے ہر حکم میں اس کی اتباع کا حکم دیتے ہیں ؛ کسی بھی چیز میں شیخ کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔یہ بھی رافضیوں ؛اسماعیلیوں اور عیسائیوں کی مانند غلو ہے۔ جواپنے ائمہ کے متعلق دعوی کرتے ہیں کہ ان کے امام معصوم ہیں ۔ ابن تومرت جس نے مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا؛ اس کے ساتھی بھی یہی دعوی کرتے ہیں کہ ابن تومرت معصوم ہے۔ وہ اپنے جمعہ کے خطبہ میں یوں کہا کرتے تھے :’’ امام معصو م اور مہدی معلوم ۔‘‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ا نہوں نے بہت سارے ان لوگوں کو قتل کردیا تھا جو ابن تومرت کو معصوم نہیں مانتے تھے۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ یہ تمام اقوال وعقائد کتاب و سنت اور اجماع امت اور [ائمہ سلف وخلف کے اقوال ]کی روشنی میں اسلام کے خلاف ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء۵۹] ’’ فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹا، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔‘‘ آیت مبارکہ میں اختلاف کے وقت ہمیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو معصوم مانتا ہے ؛ وہ حقیقت میں اس کی طرف رجوع کرنے کو واجب ٹھہراتا ہے ۔اس لیے کہ وہ یہ بات کہنا چاہتا ہے کہ اس معصوم کے پاس رسول کی طرح حق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ یہ عقیدہ و نظریہ قرآن کے صریح خلاف ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معصوم کی اطاعت مطلق طور پر بغیر کسی قید کے واجب ہوتی ہے۔ اور اس کا مخالف وعید کا مستحق ہوتا ہے۔جب کہ قرآن اس وصف کو صرف رسول کے ساتھ خاص مانتاہے۔ [اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے]۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء ۶۹] ’’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔‘‘
Flag Counter