Maktaba Wahhabi

29 - 358
علماء حجاز کی غالب اکثریت شامل تھی،دوسرا گروہ اہل الرائے کا تھا جو نصوص شرعیہ کی تشریح ان کے عقلی معنی و مفہوم کی روشنی میں کرنے پر زور دیتا تھا،اس گروہ میں فقہاء عراق کی غالب اکثریت شامل تھی۔ اس دور کے بعد فتاویٰ کا اجراء اجتہاد کے بجائے تقلید کی بنیاد پر ہونے لگا کیونکہ ایک تو خلافت اسلامیہ کی وحدت ختم ہوگئی،دوسرے ائمہ وفقہاء کے مقلدین مختلف گروہوں میں بٹ گئے،ایک خرابی یہ بھی پیدا ہوئی کہ نااہل لوگ اجتہاد کے مدعی بن بیٹھے یا صحیح اجتہاد کے اہل علماء کےصحیح مجتہدانہ فتاویٰ کو خلاف اسلام ثابت کرکے ان پر کفر کے فتوے لگانے لگے،اندھی تقلید کی وجہ سے جو ناگفتہ بہ صورت حال پیداہوئی اس کا شکوہ کرتے ہوئے سلطان العلماء عزبن عبدالسلام نے بجا فرمایا ہے کہ: ” یہ انتہائی تعجب انگیز بات ہے کہ فقہاء مقلدین کو اپنے امام کے ماخذ کےضعف کا بھی علم ہوتا ہے اور اس کے مداوا کی بھی کوئی صورت نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجوو وہ اپنے امام کی تقلید کرتے ہیں اوراپنے امام کی تقلیداور مذہبی جمود کے باعث انہیں کتاب وسنت اور صحیح قیاس کو ترک کردینے میں کوئی حجاب نہیں ہوتا بلکہ کتاب وسنت کے واضح نصوص کو ترک کردینے اور اپنے امام کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے ایسی ایسی بعید از قیاس اور باطل تاویلوں سے کام لیتے ہیں۔ لیکن الحمدللہ ہر دور میں اہل حق کا۔۔۔آلام ومصائب کا تختہ مشق بننے کے باوجود۔۔۔ایک ایسا مقدس گروہ بھی رہاہے،جنھوں نے اپنے افکار ونظریات اور اپنے فتاویٰ یا مسائل کی بنیاد قیل وقال اور آراء الرجال کے بجائے ہمیشہ کتاب اللہ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ پر رکھی۔سلف امت حضرات صحابہ کرام وتابعین کے بعدبھی ہردورمیں ایسے بےشمار اساطین علم وفضل رہے جو حاملین کتاب وسنت کی اسی سلک مروارید سے منسلک ہیں اور ان کی کتب اور فتاوی کے مجموعوں سے آج بھی دنیا اکتساب ضیاء کررہی ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل،حضرت امام بخاری،شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید حافظ ابن قیم،حافظ دنیا ابن حجر عسقلانی،شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب،امام قاضی محمد بن علی شوکانی اور دیگر ائمہ وفقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم جو حیطہ شمار سے باہر ہیں اسی مسلک سلف کے ترجمان ہیں۔ادھر برصغیر پاک وہند میں حضرت
Flag Counter