Maktaba Wahhabi

1076 - 609
کہ قرآن کی تفسیر ایسی حدیث کے ذریعے کرنے میں،جو مناسبِ حال ہو اور اس سے کسی عقیدہ اور مسلک کا اثبات نہ ہوتا ہو،کوئی حرج نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود ظنّی ہے۔میں اسے اختیارکرلیتا ہوں،لیکن اس کے علاوہ دوسرے معنی کا بھی امکان رہتا ہے،جیسے سورہ حجر کی آیت ہے:﴿كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ()الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ﴾،تفسیر میں ایک روایت ہے کہ کافروں نے ایک دوسرے سے قرآن کا استہزاء کرتے ہوئے کہاکہ میں البقرۃ لوں گا اور المائدۃ یا عنکبوت دوں گا۔اس تفسیر میں کوئی حرج نہیں،لیکن غیر یقینی ہے۔ یہ روایت امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے عکرمہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔بعد میں ابن جریررحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس،مجاہدرحمہما اللہ اور دوسرے مفسرین کے بھی کچھ اقوال بیان کئے ہیں،جن میں﴿الْمُقْتَسِمِينَ﴾سے مراد اہل کتاب کو لیا گیا ہے اور﴿الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ﴾کا مطلب یہ بتایاگیا ہے کہ انہوں نے قرآن(یعنی اپنی آسمانی کتاب تورات و انجیل)کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا،کچھ حصوں پرایمان لائے اور کچھ کا انکار کردیا۔[1] سیدنا ابن عباس کی تفسیر:"هم أهل الكتاب جزّءوا أجزاء فآمنوا ببعضه وكفروا ببعضه" کہ ان سےمراد اہل کتاب ہیں جنہوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا،کچھ پر ایمان لائے اور کچھ کا کفر کیا۔صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔[2] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے آیتِ زیر بحث کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ کی جو روایت اختیار کی ہے وہ نہ صرف ناقابلِ قبول معلوم ہوتی ہے بلکہ نظمِ قرآن کے بھی خلاف ہے۔اس کے مقابلے میں سیدنا ابن عباس کی تفسیر زیادہ برمحل اور موافقِ نظم ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیاہے اور اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس آیت کا تعلّق اوپر کی آیت 87 سے ہے۔یعنی پوری بات یوں ہے کہ ہم نے تمہیں سبع مثانی اور قرآنِ عظیم اسی طرح عطا کیا ہے جس طرح اُن لوگوں پر اپنا کلام اتارا تھا جنہوں نے اس کے حصّے بخرے کرکے اپنے قرآن کےٹکڑے ٹکڑے کرکےرکھ دیئے۔یہ اشارہ یہود کی طرف ہے جنہوں نے حق کو چھپانے کیلئے اپنے قرآن یعنی توریت کی ترتیب بھی بدل ڈالی اور اس کو مختلف اجزاء میں تقسیم کرکے اس کے بعض کو چھپاتے اور بعض کو ظاہر کرتے تھے۔سورہ انعام آیت 92 میں ان کی اس شرارت کاذکر گزر چکا ہے،دوسرے آسمانی صحیفوں کیلئے لفظ ’قرآن‘ کے استعمال کی نظیر خود قرآن کریم میں موجود ہے،ملاحظہ ہو سورۂ رعد کی آیت 31۔[3] الحاصل تفسیرِ قرآن میں حدیث وسنّت کی اہمیت کے حوالے سے ائمہ سلف و خلف اور اربابِ تفسیر کی آراء ایک طرف رکھی جائیں اور مولانا فراہی رحمہ اللہ کے افکار و نظریات کو دوسری طرف رکھ کر ان کا تقابل و تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر نظر و بصر کے سامنے آتی ہے کہ
Flag Counter