Maktaba Wahhabi

863 - 609
مزید فرماتے ہیں: "ثم انظر كيف أدمج القصّة في خمس آيات وجعل الخمس الباقية لدُعاء نوح والبركة فجمع القصّة في آيات عشر وجعلها صورتين كاملتين أحدهما بجنب الثانية،فهذا هو الوجه الصّحيح للتّقديم والتأخير،ثم من أحسن البيان فيه أن هلاك ابنه صور بغتة وفي أسرع حالة ومع ذلك هو أبين تصويرًا." [1] کہ اس واقعہ پر غور کرو کہ اللہ عزو جل نے صرف پانچ آیات میں پورے واقعہ کو سمیٹ دیا ہے۔بقیہ پانچ آیات میں سیدنا نوح کی دُعا اور اس کی برکتوں کا تذکرہ ہے۔اس طرح دس آیات میں پورا واقعہ دو کامل ترین مناظر کے ساتھ ایک دوسرے کے پہلو میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔یہ ہے تقدیم اور تاخیر کا صحیح رُخ۔اور حُسنِ بیان اور اعجازِ قرآن کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی لمحہ میں نہایت سُرعت کے ساتھ بیٹے کی ہلاکت کو بیان کیا گیا ہے،لیکن پھر بھی واقعہ کی تصویر نہایت مکمل اور حد درجہ واضح اور روشن ہے۔ کلامِ عرب سے استشہاد مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی پوری زندگی قرآنِ کریم کے مختلف پہلوؤں پر تفکر و تدبّر کرتے ہوئے گزری،ان کی زندگی کا مرکز ومحور یہی الہامی کتاب تھی لہٰذا ان کی تمام تر علمی تحقیقات اور فکری کاوشیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔انہوں نے قرآنی علوم کو سمجھنے کے لیے کچھ اصول منضبط کیے تھے اور ان کی روشنی میں قرآنِ کریم کی تفسیر لکھنا چاہتے تھے۔گو مولانا کو اتنی مہلتِ حیات تو نہیں ملی کہ وہ اس عظیم کام کو مکمل کرسکتے البتہ چند سورتوں کی تفسیر لکھ کر انہوں نے اس طرزِ تفسیر کا ایک نمونہ ضرور فراہم کر دیا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے تفسیری اجزاء متعدّد خصوصیات کے حامل ہیں۔لیکن ان میں دو خصوصیتیں ایسی ہیں جنہیں ان کا نشانِ امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک تو ان کے اُصولِ تفسیر کے مطابق قرآنِ کریم کی تمام آیات وسور باہم مربوط ومنظّم ہیں،اس حد تک کہ اگر ایک آیت یا ایک جملہ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے۔مولانا کی تفسیر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اسالیب،معانی ومفاہیم اور زبان وبیان کی تفہیم وتشریح کیلئے وہ کلامِ عرب کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔قرآنِ کریم کا نزول سرزمین حجاز اور عربوں کی زبان میں ہوا۔اس لئے اس کے معانی ومطالب کی تفہیم وتشریح کیلئے عربی مبین کے اسالیب سے واقفیت ضروری ہے۔نظمِ قرآن اور کلامِ عرب سے استدلال کوئی نئی چیز نہیں ہے۔متقدّمین نے اپنی تفاسیر میں ان اُمور کی جانب توجہ مبذول کی ہے۔لیکن نظمِ قرآن اور کلامِ عرب سے استدلال واستشہاد کو ایک مستحکم نظریہ کی صورت میں پیش کرنے کا سہرا یقیناً پر مولانا کے سر ہی ہے۔ اشعار سے استدلال اور استشہاد کے سلسلے میں بالعموم مولانا نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ شعراء کے نام کی صراحت کے ساتھ شعر نقل کرتے ہیں۔کلامِ عرب سے استشہاد کے وقت وہ عموماً زیر بحث شعراء کے عہد کے ذکر کا خصوصی اہتمام نہیں کرتے،اگرچہ کبھی کبھی یہ اشارہ کر دیتے ہیں کہ شاعر جاہلی،مخصرمی،اسلامی یا حماسی ہے۔اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا اشعار سے استدلال کے سلسلہ میں عباسی شعراء سے آگے نہیں بڑھتے۔مولانا کی زیادہ تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ جاہلی شعراء سے استشہاد کیا جائے،اس کے بعد مخضرمین اور آخری درجہ میں اموی اور عباسی عہد کے شعراء سے استشہاد کرتے ہیں۔
Flag Counter