Maktaba Wahhabi

637 - 609
کر دی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے درس میں مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی مرحوم بھی شریک ہوتے تھے۔[1] حج بیت اللہ سے واپسی پر مولانا فراہی رحمہ اللہ مدرسہ کی خدمت اور اپنے تصنیفی وتالیفی کاموں میں بدستور مصروف رہے،یہاں تک کہ 11 نومبر 1930ء کو اپنے وطن سے دور متھرا شہر میں انہوں نے وفات پائی اور وہیں ان کی تدفین بھی ہوئی،جس کی تفصیلات پیچھے گزر چکی ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ جب تک زندہ رہے،خو مدرسین اور اعلیٰ طلبہ کا ایک حلقہ بنا کر اس کو پورے قرآن مجید کا درس کئی دفعہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے دیا،ساتھ ساتھ جدید فلسفہ کے بعض موضوعات بھی طلبہ کو پڑھائے،چنانچہ بعض مستعد طلبہ نے مولانا کے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا،جن میں قابل ذکر نام مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے۔[2] مولانا آخری عمر میں تصنیف وتالیف کی بجائے اپنا تمام تر وقت انہیں طلبہ کی غور وپرداخت اور تعلیم وتربیت پر صرف فرماتے تھے اور انہیں اپنی زندگی کا ما حصل سمجھتے تھے،اسی لئے ان کےشروع کئے ہوئے علمی منصوبے تکمیلی مراحل تک نہ پہنچے پائے۔[3] دار المصنّفین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی علمی یاد گاروں میں ہندوستان کا مشہور علمی وتحقیقی مرکز اور اشاعتی ادارہ دار المصنّفین بھی ہے،جیسا کہ پیچھے گزرا،جس سے مولانا کا گہرا تعلق رہا ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تاسیسی مراحل ہی میں وہ اس سے منسلک ہوئے اور تا حیات اس کے کاموں میں نمایاں حصہ لیتے رہے۔اسی مرحلہ سے علامہ شبلی رحمہ اللہ دار المصنّفین کے کام وکاج کیلئے مولانا فراہی رحمہ اللہ کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جسے انہوں نے مسلسل بیماری کی حالت میں اکتوبر 1914ء میں مولانا کو لکھا تھا،جس میں انہوں نے لکھا: ’’وقف ناموں میں اسٹامپ کا جھگڑا تھا اس لئے کلکٹر کے یہاں درخواست دے دی وہ طے کر دیں تو تکمیل ہو جائے۔تم کو متولیوں میں رکھا ہے اور اگر دار المصنّفین قائم ہوا تو تمہارے سوا کون چلائے گا۔‘‘[4] علامہ شبلی رحمہ اللہ مدرسۃ الاصلاح اور دار المصنّفین کو ملا کر اسلامی علوم وفنون کے میدان میں تعلیم وتربیت کی ایک عظیم جامعہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ان کے ذہن میں مدرسۃ الاصلاح کی حیثیت ابتدائی اور دارُ المصنّفین کی تکمیلی مرحلہ کی تھی۔ دار المصنّفین میں درجۂ تکمیل کے تحت ان کے پیش نظر سب سے پہلے سیرت کے موضوع پر مطالعہ وتحقیق کی سہولتیں فراہم کرنا اور اس فن کے ماہرین تیار کرانا تھا۔اس کے لئے انہوں نے تحقیقی کام کرنے والوں کو وظیفہ دینے کا اہتمام بھی کیا۔[5] شروع میں چونکہ مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا،لہٰذا ایک الگ وظیفہ فنڈ قائم کیا۔علامہ شبلی رحمہ اللہ کی اپیل پر اس فنڈ کے لئے جن لوگوں نے عطیات پیش کیے ان میں سر فہرست مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نام آتا ہے جنہوں نے اس مد میں تیس روپیہ ماہوار دینا منظور کیا۔مولانا مسعود علی ندوی کے
Flag Counter