Maktaba Wahhabi

580 - 609
تعارُف ومختصرحالاتِ زندگی شجرۂ نسب مولانا فراہی رحمہ اللہ(1930ء)کا سلسلۂ نسب سات پشتوں تک معلوم ہو سکا ہے،جو حسب ذیل ہے: ’’ابو اَحمد حمید الدین فراہی(انصاری)بن عبدالکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہاء الدین۔‘‘ [1] اس خاندان کے مؤرثِ اعلیٰ شیخ بہاء الدین ہیں،ان کے بیٹے دائم علی،ان کے بیٹے قائم علی ہیں،قائم علی کے تین بیٹے تھے:شیخ بدل،خوب اللہ اور تاج علی۔شیخ بدل اور خوب اللہ تو لا ولد تھے،جبکہ تاج علی کے دو بیٹے تھے:تصدق حسین اور قربان قنبر۔قربان قنبر(مولانا فراہی رحمہ اللہ کے دادا)کے چار بیٹے تھے:محمد نعیم،محمد سلیم،محمد عظیم اور عبد الکریم۔محمد نعیم اورمحمد عظیم لا ولد تھے،جبکہ محمد سلیم کے ایک بیٹے شیخ محمد اور عبد الکریم کے دو بیٹے حمید الدین اور رشید الدین تھے۔[2] آباء و اَجداد مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کانسبی تعلق صدر اوّل کے مسلمانوں کی دوسری وحدت سے معلوم ہوتا ہے۔لیکن بعض قرائن اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق انصارِ مدینہ سے ہے،یہی وجہ تھی کہ مولاناکے خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ ایک عرصہ تک انصاری لکھتے رہے۔[3] مولانامؤرث اعلی شیخ بہاؤ الدین جونپور آ کر آباد ہوئے آپ کے خاندان کا شمارہ یہاں کے معزز خاندانوں میں ہوتا تھا۔یہ خاندان نہ صرف تعلیم اور دُنیاوی وجاہت کے اعتبار سے ممتاز رہا،بلکہ ادبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی بہت سی غیر معمولی خصوصیات کا حامل تھا۔آپ کے خاندان کا اپنا کولہو،بیل گاڑی اور بیل چکی تھی اور گاؤں کی دیہاتی زندگی میں بیل گاڑی،کولہو اورچکی کا مالک ہونا اس خاندان کے صاحب حیثیت ہونے کی واضح دلیل ہے۔[4] مولانا فراہی رحمہ اللہ کے جدّ امجد مولانافراہی رحمہ اللہ کے دادا قربان قنبر نے دوشادیاں کیں۔پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔بیٹے کا نام عبد الکریم تھا جو مولانا فراہی رحمہ اللہ کے والد ہیں۔مولانا کے دادا اَعلیٰ تعلیم یافتہ اور خاندان کے پہلے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔[5] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(1953ء)لکھتے ہیں: ’’اورمولانا(شبلی نعمانی رحمہ اللہ)کے نانا شیخ قنبر انصاری انگریزی تسلط کے ابتدائی زمانہ میں اعظم گڑھ کےایک مشہور وکیل تھے۔
Flag Counter