Maktaba Wahhabi

581 - 609
مولانا سے سنا تھا کہ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔آپ ان کے اشعار بھی سناتے تھے،جو شاید اہل بیت کی منقبت میں تھے۔مولانا حمید الدین مرحوم مصنف نظام القران انہیں شیخ قربان قنبر انصاری کے پوتے ہیں۔‘‘ [1] گویا مولانا شبلی(1914ء)اور فراہی آپس میں پھوپھی زاد اور ماموں زاد بھائی تھے۔[2] والد محترم مولانا فراہی رحمہ اللہ کے والد حاجی عبد الکریم نے بھی دو شادیاں کیں۔ان کی پہلی شادی مرزا پورمیں حاجی اکبر کی پھوپھی سے ہوئی۔ان کے بطن سے دو لڑکے حمید الدین اور رشید الدین پیدا ہوئے۔ایک بیٹی بھی تھی جو بچپن میں انتقال کر گئی۔دوسری شادی حاجی عبدالکریم نے جائیداد کے خیال سے موضع طو وا میں اپنے ماحول کی لڑکی سے کی لیکن اس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[3] دنیوی شان وشوکت اوررئیسانہ ٹھاٹ باٹ سے ان کوطبعی مناسبت تھی۔انہوں نے پھریہا گاؤں کو چھوڑ کر گاؤں کے باہر اپنے اہل وعیال کیلئے ایک نئی بستی بسائی جس میں ان کا اپنا گھر یا کچھ اسامیوں اورخدمتگاروں کے گھر تھے۔گھر کے ساتھ ہی ان کی بنوائی ہوئی چھوٹی سی مسجد تھی،جس سےان کے دینی رجحان کا پتہ چلتا ہے۔وہ اتنے بڑے رئیس تھے کہ انہوں نے ایک ہاتھی پال رکھا تھا۔[4] حاجی عبد الکریم اس وقت کے دستور کے مطابق عربی وفارسی پڑھے ہوئے تھے اورمولوی کہلاتے تھے۔انہوں نے منصفی کا امتحان پاس کیا اور محمد آباد میں کچھ دنوں وکالت بھی کی،مگر خاندان کے دوسرے متعدد افراد کی طرح انہوں نے مستقل پیشے کے طور پر وکالت اختیار نہیں کی بلکہ زمینداری کو ہی اپنے مستقل گزر بسر کا ذریعہ بنایا۔معلوم نہیں کہ رسمی تعلیم کے علاوہ مطالعے کا انہیں کس حد تک ذوق تھاالبتہ بعض شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا کتب خانہ تھا۔مولانا شبلی رحمہ اللہ کوایک کتاب کی ضرورت پڑی تو انہی کے ہاں سے منگوائی۔ والدہ محترمہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ننھیال کا تعلق مرزا پور سے تھا۔انکی والدہ کانام مقیمہ بی بی تھا۔ان کی ایک پھوپھی کا نام بھی مقیمہ بی بی تھا،جو بندول بیاہی ہوئی تھیں اور مولانا شبلی رحمہ اللہ کی والدہ تھیں۔[5] مشرقی طرزِ معاشرت کےمطابق مولانا فراہی رحمہ اللہ والد کی نسبت والدہ سے زیادہ قریب تھے۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتاہے کہ مولانا تعلیم کے لئے لاہور جانے لگے تو ان کی والدہ نے انہیں الگ سے کچھ پیسے دیئے۔انہوں نے والدہ کی دی ہوئی رقم پوچھے جانےکے باوجود والد صاحب کو نہیں بتائی۔[6]
Flag Counter