Maktaba Wahhabi

595 - 609
نبوی کا کچھ حصہ ان سے فارسی میں ترجمہ کرایا اور اس کی زبان کو اس قدر معیاری پایا کہ اس کو کالج کے نصاب میں داخل کر دیا۔[1] اسی زمانہ میں سرسید،امام غزالی کے کسی قلمی رسالہ کو چھپوانے کا اہتمام کر رہے تھے،وہ نسخہ نہایت کر م خوردہ تھا،اس کی تصحیح وتہذیب کے لئے انہو ں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ روزانہ کچھ دیر کے لئے مولانا شبلی رحمہ اللہ اور حالی رحمہ اللہ(1933ء)کو ساتھ لے کر بیٹھتے اور اس کے مختلف نسخوں سے تقابل اور کچھ سیاق وسباق سے اس کی کٹی ہوئی یا الجھی ہوئی عبارتوں کو درست کرنے کی کوشش کرتے لیکن یہ کام بڑے دردِسر کا تھا اور ان مصروف حضرات سے کچھ سرک نہیں رہا تھا۔بالآخر ایک روز مولانا شبلی نے تنگ آکر سر سید سے کہا کہ یہ کام حمید کو دے دیجئے وہ کر دیں گے۔سرسید حیران ہو ئے،لیکن دونوں کے زور دینے پر ایک روز مولانا کو بلا بھیجا ا ور کتاب کا ایک نسخہ ان کے حوالے کر کے کہا کہ آپ غورکر کے متعین کیجئے کہ ان مقامات پر کیا الفاظ مناسب ہوں گے۔مولانا کتاب ساتھ لے کر چلے آئے اور مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذوق سے ہر جگہ موزوں اورمناسب الفاظ لکھ دیئے۔چند روز کے بعد جب کتاب سر سید کے حوالے کی تو انہوں نے کتاب کے دوسرے نسخوں سے نشان زدہ مقامات کامقابلہ کیا اور سرسید کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نشان زدہ مقاما ت میں مولانا کا قیاس اورذوق یا تو دوسرے نسخوں کے بالکل مطابق ہے یا کم از کم ان سے قریب تر ہے۔سر سید مولانا کی اس حیرت انگیز قابلیت سے نہایت مرعوب ہوئے اور پوچھا کہ آپ نے ان الفاظ کے متعین کرنے میں کس چیز سے راہنمائی حاصل کی ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ سیاق کلام اور امام غزالی(505ھ)کی زبان،دو چیزوں کو سامنے رکھ کر میں نے یہ الفاظ متعین کیے ہیں اورامید ہے کہ اکثر جگہ میرا قیاس درست نکلے گا۔[2] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے اس بیان کی جزئیات میں بعض اشکالات بھی ہیں۔سر سید مولانا کے کام کے صحت و سقم کو بعد میں پرکھ سکتے تھے تو وہ پہلے یہ کام خود کرنے سے کیوں قاصر رہے؟ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ پہلے نسخہ ایک ہی تھا،درستگی کے بعد دوسرے نسخے دستیاب ہوئے اور موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ تاریکی میں چلائے گئے تیر بھی ٹھیک نشانے پر لگے ہیں۔ ایک اُلجھن یہ بھی پیدا ہوتی ہے کہ داخلے کے وقت سر سید کو مولانا کی غیر معمولی قابلیت اور فاضلانہ صلاحیت کا اندازہ ہو چکا تھا جس کا اظہار انہوں نے پرنسپل کے نام اپنے خط میں کیا تو پھر بعد میں انہیں طالب علم فراہی کے اس کارنامے پر اس قدر حیرت کیوں ہوئی؟ معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کی ترتیب میں تقدیم وتاخیر کی وجہ سے خلط مبحث ہوگیا ہے۔ بہرحال اس دوران مولانا فراہی رحمہ اللہ نے مولانا شبلی نعمانی کے ایک عربی رسالے کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین صاحب کی تصنیف وتالیف کا عہد طالب علمی ہی سے شروع ہوگیا تھا اور خود بزرگوں نے فرمائش کر کے شروع کرایا۔اسی زمانہ میں علی گڑھ کالج کے دینیات کے لئے سرسید نے مولانا شبلی مرحوم سے عربی میں سیرت نبوی پر ایک مختصر رسالہ لکھوایا تھا،جس کا نام ’تاریخ بدء الاسلام‘ ہے۔پھر مولانا حمید الدین صاحب سے اس کا ترجمہ فارسی میں کرایا،استاد شاگرد کے یہ دونوں عربی وفارسی رسالے اسی وقت چھپ گئے تھے۔‘‘ [3]
Flag Counter