Maktaba Wahhabi

125 - 531
صورت میں بھی آئی ہے۔ (مثلاً بخاری حدیث نمبر ۴۹۲۴ اور مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۱۔ ۲۵۷) سوال و جواب کی یہ صورت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس امر میں صریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی آیات سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں ، جبکہ حضرت جابر نے سورۂ مدثر کی ابتدائی پانچ آیتوں کو پہلی وحی قرار دیا ہے۔ بظاہر نظر آنے والا یہ اختلاف حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے وہ اس طرح کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں پہلی وحی ہیں اور سورۂ مدثر کی ابتدائی پانچ آیتیں وحی میں توقف کے بعد شروع ہونے والی پہلی وحی ہیں ۔ اس مسئلہ پر مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے، پہلی وحی الٰہی کے مسئلے میں مفسرین اور محدثین کے مختلف اقوال کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : ’’یہ اقوال دیکھ کر مجھے نہایت خوشی ہوئی، جن بزرگوں کا یہ قول ہے یقینا ان کا یہی مقصود تھا کہ افتتاح وحی تنزیل میں بالترتیب دو منزلیں پیش آتی ہیں : پہلا مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ وجود نبوت کو وحی الٰہی اپنی جانب مخاطب کرے اور اس سے علاقۂ وحی قائم کیا جائے اس کو انھوں نے نبوت سے تعبیر کیا۔ دوسری منزل یہ ہے کہ جب رابطہ قائم ہوگیا تو اب کام کے شروع کردینے کا حکم دیا گیا، یہ رسالت ہے…‘‘ آگے تحریر فرماتے ہیں : (۱)… ’’امام بخاری کی روایت کیف کان بدء الوحی؟‘‘ سب سے زیادہ مستند و معتبر روایت ہے جو اس بارے میں ہم تک پہنچی ہے اور تقریباً تمام ائمہ فن نے اس کو قبول کیا ہے یہ بالکل صحیح ہے، لیکن اس میں صرف ’’بدء‘‘ یعنی انفلاق صبح وحی کی خبر دی گئی ہے، یہ مخاطبۂ وحی کا آغاز ہے اور جن جن صحابہ و تابعین سے اولیت ’’اقرأ‘‘ منقول ہے سب نے افتتاح وحی ہی کی بنا پر ’’اقرأ‘‘ کو اولین چیز قرار دیا ہے۔ (۲)… دوسری روایات سورۂ مدثر کے متعلق ہیں ۔ بعض متاخرین نے ان کو ایک دوسرا مذہب قرار دیا ہے، لیکن فی الحقیقت ان میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں کوئی اختلاف نہیں ، ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت جابر سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی چیز اتری؟ انھوں نے جواب دیا کہ’’مدثر‘‘، لیکن سائل سن چکا تھا کہ پہلا خطاب ’’اقرأ‘‘ ہے، اس لیے اس نے پھر پوچھا کہ ’’اقرأ‘‘ یا ’’مدثر‘‘ حضرت جابر نے کہا کہ میں وہی کہتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میں نے جبریل کو فضا میں دیکھا اور گھر پہنچ کر خدیجہ سے کہا مجھے چادر اڑھادو‘‘ اس پر یہ آیت اتری: ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾ یہ بھی بالکل صحیح ہے، لیکن اس میں صرف ابتدا کا اتنا حصہ رہ گیا ہے کہ حضرت جبریل کے اولین مشاہدے میں ’’اقرا‘‘ کا حکم ہوا اور اس کے بعد دوسرے مشاہدے کے بعد ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾ اتری، چنانچہ اسی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جب میں نے اوپر نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ’’وہی
Flag Counter