Maktaba Wahhabi

384 - 531
حدیث، بلکہ انکار قرآن کا حوصلہ دیا ہے۔ مذکورہ منکر روایت اور پھر عربوں میں تورات و انجیل اور مزعومہ صحیفۂ لقمان کے عربوں میں متد اول ہونے سے استدلال کے بعد گیلانی نے اس غیر ذمہ دارانہ دعویٰ سے بھی اپنی کتاب کو رنگین کر دیا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو اور عبد اللہ بن سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اذن سے تورات کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ دوسری منکر روایت: امام احمد فرماتے ہیں : ((حدثنا قتیبۃ، حدثنا ابن لَھِیعۃ، عن واھب بن عبد اللّٰہ المعافری، عن عبد اللّٰہ بن عمرو، قال: رأیت فیما یری النائم کأن فی أحد أْصبعی سمنا وفی الأخری عسلا، فأنا العقھما، فلما أصبحت ذکرت ذلک للنبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، فقال: تقرأ الکتابَین: التوراۃ والفرقان‘‘ فکان یقرأھما)) [1] ’’ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابن لھیعہ نے واھب بن عبد اللہ معافری سے، اور انہوں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، عبد اللہ نے کہا: میں نے خواب میں جو ایک سونے والا دیکھتا ہے دیکھا گویا میری ایک انگلی میں گھی اور دوسری میں شہد ہے اور میں دونوں چاٹ رہا ہوں ‘‘ اور جب صبح ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: تم دونوں کتابوں : تورات اور فرقان کو پڑھو گے‘‘ اور وہ ان کو پڑھتے تھے۔‘‘ حافظ ابن حجر نے اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن امام ذھبی نے لکھا ہے: یہ خبر منکر ہے اور قرآن کے نزول کے بعد کسی شخص کو شرعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ تورات کی تلاوت کرے اور اس کو حفظ کرے، اس لیے کہ وہ تحریف و تبدیلی سے گزر چکی ہے اور اس پر عمل منسوخ ہو چکا ہے اور اس میں حق و باطل خلط ملط ہے، لہٰذا اس کی تلاوت سے اجتناب واجب ہے، البتہ عبرت کے لیے اور یہودیوں کو جواب دینے کی غرض سے ایک عالم کے لیے معمولی درجے میں اس پر نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔‘‘ واضح رہے کہ اس واقعہ کے راوی عبد اللہ بن لہیعہ کے ضیعف ہونے پر ائمہ نقد کا اتفاق ہے اور اس کے شیخ واھب بن عبد اللہ معافری کی جرح و تعدیل کے بارے میں امام ابن ابی حاتم نے کچھ نہیں لکھا ہے۔[2] اسی صفحہ کے حاشیہ پر گیلانی نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو نے سریانی اور عبرانی زبانیں سیکھ لی تھیں اور انہی میں سے کسی میں تورات پڑھتے تھے، اس سے ان کا یہ دعویٰ ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے کہ تورات اور انجیل کے متعدد نسخے
Flag Counter